Site icon Daily Pakistan

مہنگائی،مالیاتی ادارے اورعام عوام

یہ بات اب تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر سامنے آچکی ہے کہ عالمی اور قومی مالیاتی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس زمینی حقائق سے کسی طور مطابقت نہیں رکھتیں۔ اعداد و شمار کے کھیل میں الجھی ہوئی یہ رپورٹس اکثر حکومتوں کی سرپرستی یا مخصوص مفادات کی بنا پر اس انداز میں تیار کی جاتی ہیں کہ ملک کی معاشی تصویر مصنوعی طور پر خوشنما دکھائی دے ۔ مالیاتی ادارے وقتاً فوقتاً مہنگائی میں کمی اور معیشت میں بہتری کی نوید سناتے ہیںپر ان کی رپورٹوں کی چمک عام آدمی کی زندگی کے اندھیروں کو ذرا بھی کم نہیں کر پاتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ عام عوام کی زندگی پر معاشی دباؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔اشیائے خور و نوش ، جان بچانے والی ادویات، گیس، بجلی اور ایندھن کی قیمتوں نے عام شہری کی کمر توڑ دی ہے ۔ متوسط طبقہ، جسے کبھی خوشحال طبقہ تصورکیا جاتا تھااب تیزی سے غربت کی لکیر کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ نچلا طبقہ روزانہ کی بنیاد پر زندہ رہنے کی جدوجہد میں ہارتاہوادیکھائی دیتا ہے ۔ذرائع آمدن سکڑتے جا رہے ہیں، روزگار کے مواقع ناپیدہیں اور قوتِ خرید اس حد تک کمزور ہو چکی ہے کہ خوشحال سمجھے جانے والے گھرانے بھی اب اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔اس المیے کی شدت اورحقیقت کوسمجھنے کیلئے ایسے گھرانوں پرتوجہ دیناہوگی جو اپنے بچوں کو نمک اور پانی کے ساتھ روٹی دینے پر مجبور ہیں اور بیمار افراد ادویات کے مہنگے داموں کے باعث دیسی ٹوٹکوں سے علاج پر اکتفا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، عالمی ادارے اپنی رپورٹوں میں ترقی اور استحکام کی جوتصویرکھینچتے ہیںوہ کسی خوشحال وخوش نماداستان جیسی معلوم ہوتی ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے دادی اماں کی پریوں والی کہانیاں۔
یہ بات اب کسی شک و شبہے سے بالاتر ہو چکی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے، بالخصوص آئی ایم ایف، اپنی رپورٹس میں زمینی حقائق کے برعکس ایک ایسا معاشی منظرنامہ پیش کرتے ہیں جو عوامی زندگی کی حقیقی تصویر سے میل نہیں کھاتا۔آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک اور مڈل ایسٹ اینڈ سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک آؤٹ لک کی دو متضاد رپورٹوں نے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا ہے کہ یہ ادارے غیرحقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں، عوامی مشکلات یا معاشرتی اثرات کو مدنظر نہیں رکھتے۔ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہے گی، ترسیلاتِ زر اور کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری آئی ہے، مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی کا امکان ہے، جب کہ چند ہی دن بعد جاری ہونے والی دوسری رپورٹ میں اس خوش فہمی سے یوٹرن لیتے ہوئے اعتراف کیا گیا کہ 2025ـ26 میں مہنگائی دوبارہ بڑھنے کا امکان ہے، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، سبسڈی کے خاتمے، اور علاقائی کشیدگی معیشت پر مزید دباؤ ڈال سکتی ہے۔ یہ تضاد اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ان رپورٹس کی بنیاد زمینی اعداد و شمار نہیں بلکہ مفروضات اور بین الاقوامی مالیاتی مفادات ہیں۔پاکستانی عوام کیلئے ان رپورٹس کی خوش خبریاںکسی طنز سے کم نہیں۔ واقعی مہنگائی میں کمی ہو رہی ہوتی تو ملک کے بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں نہ کر رہیں ہوتیں۔عام شہری کے لیے آٹا، گھی، چینی، دودھ، سبزی اور ادویات روز بروز مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ متوسط طبقہ جو کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، اب نچلے طبقے میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرول، اسکول فیس اور کرایوں نے عام گھرانوں کے بجٹ کو تہس،نہس کر دیا ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹوں میں ترقی کا ذکر تو ہوتا ہے پر یہ ترقی عوام کے دسترخوان تک نہیں پہنچتی۔ ترسیلاتِ زر میں اضافہ یا کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری جیسے اعداد و شمار یقیناً معاشی کاغذات پر خوشنما دتصورپیش کرتے ہیںپر ان کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔عالمی مالیاتی ادارے خود تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کی سبسڈی ختم کرنے، ٹیرف بڑھانے اور ٹیکس نیٹ وسیع کرنے سے مہنگائی کا دباؤ بڑھے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ علاقائی کشیدگی اور قدرتی آفات معیشت پر منفی اثر ڈالتی ہیںپھر بھی وہ اپنی سخت شرائط میں کوئی لچک نہیں دکھاتے۔ پاکستان کے عوام کے لیے یہ صورتحال دوہری اذیت کا باعث بن چکی ہے۔ایک طرف مہنگائی کا طوفان، دوسری طرف قرضوں کی شرائط۔ حکومتیں ماضی کی طرح آج بھی ان اداروں کے دباؤ کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ پاکستان نے دہائیوں سے اپنی معاشی سمت خود طے کرنے کے بجائے اسے بیرونی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ہر نئی حکومت آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور ہرقرض پروگرام کو آخری پروگرام کہاجاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ قرض کی ایک قسط ملنے پر وقتی ریلیف تو ملتا ہے پر اس کے نتیجے میں آنے والی مہنگائی، ٹیکسوں اور بجلی و ایندھن کے نرخوں میں اضافہ عوام کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ ان تمام معاشی اعلانات اور رپورٹوں کی حیثیت محض کاغذی بیانات کی ہے جب تک عوام کی زندگیوں میں بہتری نہیں آتی۔ عوام کے لیے ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ ترسیلات زر بڑھ گئی ہیں یا خسارہ کم ہوا ہے۔ عوامی سطح پرترقی وخوشحالی تب ہی ممکن ہے جب عام عوام کے گھروں میں سکون، دسترخوان پر کھانا، اور بچوں کے چہروں پر اطمینان ہو۔آئی ایم ایف کی رپورٹوں میں بہتری کی باتیں ہیں پرعوام کی حالت بدستور خستہ ہے تو یہ رپورٹس محض اعداد و شمار کا فریب ہیںحقیقت نہیں۔پاکستان کو اب اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ معاشی استحکام صرف بیرونی قرضوں یا رپورٹوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ حقیقی استحکام تب آئے گا جب ملک اندرونی طور پر خودکفیل بنے گا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت پائیدار منصوبہ بندی کرے، سیاسی تسلسل کو یقینی بنائے اور بدعنوانی کیخلاف حقیقی اقدامات کرے۔ سرمایہ دارانہ مفادات کے بجائے عوامی فلاح کو معاشی پالیسی کا مرکز بنایا جائے۔

Exit mobile version