گزشتہ سے پیوستہ
میرا آج کا موضوع ادب اور صحافت نہیں بلکہ اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستانی صحافیوں کی ذمہ داریاں اور اُنھیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔ حالات حاضرہ سے عوام الناس کو آگاہ کرنے کا نام خبر اور خبر کو تلاش اور اُسکی صداقت معلوم کرکے منظر عام پر لانے والا صحافی جبکہ یہ پیشہ صحافت کہلاتاہے۔ ایک زمانہ تھا جب صحافت صرف اخبارات تک محدود تھی پھر جوں جوں ذرائع ابلاغ نے ترقی کی تو صحافت بھی اخبار ات سے ریڈیو ، ٹیلی ویژن کا سفر طے کرتی اب سوشل میڈیا تک آپہنچی ہے۔ اس طرح صحافت کا دائرہ کار گذشتہ پچیس تیس سالوں میں بہت ہی وسعت اختیار کرچکا ہے۔ سچ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے برپا ہونے والا انقلاب اس تیزرفتاری سے برپا ہواکہ ہم پوری طرح اس کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔آج الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ زمانہ قدیم میں جو خبریں مہینوںکے بعد لوگوں تک پہنچتی تھی آج وہ سیکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس تیزرفتاری کی بدولت صحافی برادری پر سب سے زیادہ دبا¶ ہے۔ جو خبر سب سے پہلے پہنچانے میں کامیاب رہا اُسی کے ڈنکے بجتے ہیں اور جو سستی کا مظاہرہ کرے گا وہ اس دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔یوں شعبہ صحافت میں جس قدر جدیدیت آئی اُسی قدر ایک صحافی کے کندھوں پربھاری ذمہ داری بھی آئی۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستانی صحافت میں ذمہ داریاں اور چیلنجز پر بات کریں تو اُس کے لیے ضرروری ہے ہم پاکستانی قوم کے مزاج کا جائزہ لیں۔ ہم پاکستانی جذباتی ، قوت برداشت سے عاری ، قانون کی پاسداری کی بجائے خود کو ہر قانون سے آزاد، جمہوریت پرستی کی بجائے شخصیت پرست ، حقیقت پسندی کی بجائے مصنوعی زندگی ، سنسنی خیز اور جھوٹ پر مبنی خبروں کے ساتھ ساتھ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کے دلدادہ ہیں۔ اپنی شہرت کے لیے دوسروں کی عزت ، چادر اور چاردیواری کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ہم مال مفت دل بے رحم پر رج کر عمل کرتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ جبکہ خود تنقید برداشت کرنے سے عاری ہیں ۔ ہمارے ہاں دانش کے بغیر دانشوروں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ بعض کی گفتگو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ دانشور نہیں بلکہ مالشے ہےں۔جو اپنے منظور نظر سیاست دان کو مکھن لگاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ مکھن کی بجائے انھیں تیل دے رہے ہیں۔جس قوم میںاتنی رنگا رنگی ہووہاں صحافت کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ پاکستانی قوم کے مزاج کو ذہن میں رکھیں تو ہم پاکستانی صحافت کی مشکلات اور چیلنجز کو بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستانی وطن عزیز میں ہوں یا بیرون وطن اُن کے مزاج میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ آج کی اس مجلس میںمحترمی ظہور نیازی سابق ایڈیٹر روزنامہ جنگ لندن موجود ہیں۔ وہ بہتر جانتے ہیں کہ بعض اوقات ہمارے نام نہاد سیاست دان سوٹے لے کر اخبار کے دفتر پہنچ جایا کرتے تھے۔ مارکٹائی کے علاوہ ٹیلی فون پر خرافات ، دھمکیاں تو روزمرہ صحافی کو سننی پڑتی ہیں۔ اکثر ذاتیات پر اُتر آتے ہیں ۔اسکے مناظر دور جدید کے سوشل میڈیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی قوم کا یہ مزاج اور دوسری طرف خبر کی کھوج لگاتے ہوئے بعض اوقات صحافی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر بچ جائےں تو ممکن ہے ملک کے طاقتور اداروں کی نظروں سے نہ بچ سکیں۔ ایسے میں جبری گمشدگی ، جسمانی اور ذہنی تشدد اس قدر کیا جاتا ہے کہ اچھا بھلا کلین شیو سمارٹ صحافی جب کچھ عرصہ بعدرہائی پاتا ہے تو یوں نظر آتا ہے جیسے یہ تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ کاٹ کر آیا ہے۔ لمبی داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر شلوار ۔ تشدد کے ساتھ ساتھ انھیں بدنام کرنے کےلئے اُن کی ناجائزہ ویڈیو تیار کرنے جیسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی اداروں سے بچ جائے تو پھر سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اپنے مخالف گروپ کے صحافیوں کو عبرت کا نشانہ بناتی ہیں۔ماں بہن کی گالیاں تو عام بات ہے۔ اُن پر مغلفات اور خرافات کا طوفان بدتمیزی کی یلغار کردی جاتی ہے ۔ اس پر ستم یہ کہ صحافی کی نہ کوئی معقول تنخواہ ہے اور نہ معاوضہ۔ اُن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے کام کرتے ہوئے تازہ ترین خبروں سے آگاہ رکھیں۔بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اگر کچھ معاوضہ لے بھی لیں تو پھر لفافہ صحافت کی تلوار اُن کی گردن پر لٹکا دی جاتی ہے۔ اس منظرنامہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم صحافت کو پیش آنے والے چیلنجز کو بخوبی سمجھ سکتے تھے۔ صحافت کو ہر دور میں مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔ حتیٰ کہ اردو کا پہلا صحافی مولوی محمد باقربھی اس سے مبرا نہیں تھا۔آج صحافت کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن میں پہلا مسئلہ تو خبر کی جانچ پڑتال کا ہے۔ صحافی کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ اس کی صداقت کی چھان بین کرے۔ اگر وہ اس جھنجٹ میں پڑ جائے تو پھر خبر خبر نہیں رہتی ۔ تیز رفتاری کی بدولت اب چھان بین کا عنصر خبر سے اکثر غائب نظر آتا ہے۔ ایسے میں اگر خبر سچی ہوگی تو عوام کا اعتبار بحال ہوگا اور اگر خبر جھوٹ پر مبنی ہوگی تو پھر صحافی کی عزت و آبرو کامسئلہ بن جائے گا۔ ایسے میں صحافیوں پر دیگر قلم کاروں کی نسبت زیادہ دبا¶ ہے۔ انھیں محنت اور جستجو بھی دوسروں سے زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ خبر جب اخبارات کے ایڈیٹر یا ٹیلی ویژن سٹیشن کے احکام تک پہنچتی ہے تو وہ بھی اُسی تیزی کے ساتھ نشر کردیتے ہیں۔ بعض اوقات ٹیلی ویژن پر چلنے والی خبروں کے کیپشن املا کی غلطیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ تیز رفتاری میں جہاں ہم بہت سے دیگر چیزوں کو پائمال کرتے ہیں وہاں اردو کے ساتھ بھی انصاف نہیں کرپاتے۔ بڑی بڑی اخبارات کی شہ سرخی میں اردو کی بجائے انگریزی کی بھرمار ہوتی ہے۔ جن انگریزی الفاظ کے متبادل اردو میںموجود ہیں اُس طرف توجہ دیئے بغیر انگریزی کی بھرمار کی جاتی ہے۔اس کا قصوروارصحافی نہیں بلکہ ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر کو ٹھہراتے ہیں جو اپنی ذمہ دارایاں نہیں نبھاتے۔ میرے خیال میں صحافت کا کام خبروں سے آگے بڑھ کر اصلاح معا شرہ کی بھی ذمہ داری آتی ہے۔ دور جدید کے ٹیلی ویژن ٹاک شو ….ایک کھیل تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔ اینکر مسئلہ حل کرنے کی بجائے پوری کوشش کرتے ہیں کہ آگ بھڑکائی جائے جس کے نتیجہ میں اکثر لوگ دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ یہ زرد صحافت کی بدترتین شکل ہے۔ کیا یہی صحافت ہے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے۔ میرے خیال میں صحافی آگ لگانے کی بجائے اگر بھلائی ، اصلاحی ، تعمیری اور پاکستان کی بہتری کے لیے کام کریں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ جس طرح تین ستونوں میں اصلاح کی ضرورت ہے بالکل اُسی طرح شعبہ صحافت میں بھی بڑی اصلاح کی ضرورت ہے۔ بدلتے دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر ہم نے اصلاح نہ کی تو پھرعوام یہ کہنے میں حق بجانب ہونگی کہ….
صحافی ہوگیا مرحوم ، صحافت مر گئی کب کی
قلم اب جرات اظہار رائے کو ترستا ہے
پاکستان میں بے شمار میڈیا ہاوس تو قائم ہوچکے ہیں لیکن تربیت گاہ کوئی نہیں۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ جس طرح میڈیکل ، انجیرنگ یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں بالکل اُسی طرح میڈیا یونیورسٹی بھی قائم کی جائے ورنہ ہم صحافت کی عالمی دوڑ سے بہت پیچھے رہ جائیں گئے ۔ آزادی صحافت بہت ضروری ہے جس کے لیے صحافیوں نے بڑی قربانیاں دیں ہیں۔لیکن آزادی کے لیے بھی کچھ پابندیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحافیوں کو خبر دینے سے پہلے خود کو بھی اس احتسابی عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ ملے اُسے فوری طور پر آگے بڑھادینے سے صحافت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ آزادی رائے ہو لیکن آزادی رائے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوکر صحافیوں، سیاستدانوں یا مذہبی رہنما¶ں کو گالیاں نکالنا شروع کردیں چنانچہ آزادی کی خاطر کچھ پابندیوں کا ہونا بھی انتہائی لازمی ہے۔ پاکستانی صحافی اکثر برطانیہ میں آزادی رائے کی مثالیں دیتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ آپ ہائیڈ پارک لندن سپیکر کارنر میں کھڑے ہوکر جو مرضی میں آئے بات کریں لیکن ہائیڈ پارک سے باہر کسی جگہ ہالوکاسٹ Holocaust سے انکاری پر بات کریں، برطانوی سالمیت اور اس کے سیکورٹی اداروں پر پتھرا¶ں کرکے دیکھیں تب آپ کو مغربی ممالک کی آزادی رائے کا علم ہوسکے گا کہ ان میں کتنی قوت برداشت ہے۔ پاکستانی اور برطانوی صحافت میں جو فرق مجھے نظر آیا وہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی ڈنڈا مارتے ہیں جبکہ برطانوی ڈندی مارتے ہیں۔ ڈنڈے سے اگرہڈی پسلی ٹوٹ جائے تووہ چند دنوں یا ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتی ہے لیکن ڈنڈی مارنے والے جو نقصان کرتے ہیں اُن کے اثرات صدیوں رہتے ہیں۔ پاکستان پریس کلب برطانیہ کے صدر ارشد رچیال کو ممکن ہے یاد ہو کہ ان کی صحافتی زندگی کے ابتدائی دور میں یہ میرپور میں مصنوعی معذور بن کر مانگنے والوں کے کرتوت سامنے لایا کرتے تھے۔ اگر کوئی گدا گر مانگنے کی خاطر اپنے آپ کو ٹانگوں سے محروم یا کوڑھ جیسی موذی مرض میں مبتلا ظاہر کرتا تورچیال صاحب ویڈیو گرافر ٹیم کے ساتھ اُن کا بھانڈا سربازار پھوڑتے تھے۔شہر میں روایتی تعریفی صحافت کی بجائے حقیقت پر مبنی صحافت کے بانی یقیناً ارشد رچیال ہی ہیں۔ یہ آج جس مقام پر ہیں یہ برسوں سے ان کی محنت کا ثمر ہے۔ ساجد یوسف ہمارے وہ صحافی ہیں جنھوں نے میرپور سے نکل کر اسلام آباد جاکر مین سٹریم میں اپنی صحافت کا لوہا منوایا۔ انھوں نے صحافت میں جو کارنامے انجام دیئے اور جو دوستی کے پودے لگائے وہ آج سب ثمریاب ہوچکے ہیں۔ آج کی یہ باوقار تقریب ساجد یوسف کی اُسی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک ہفتہ کے مختصر وقت میں انھوں نے برطانیہ بھر کے اہل قلم کو یہ موقع فراہم کیا کہ ہم سب آج یہاں موجود ہیں…. زندہ باد ساجد یوسف زندہ رہو۔