Site icon Daily Pakistan

احتجاج کیسا، کنٹینروں سے سڑکیں بلاک

احتجاج کی کال دینے والوں سے مزاکرات کرتے، ان مذاکرات کو آن ایئر کرتے جیسے 26 ویں ترمیم کے کیس کو میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے۔ اس سے عوام کو سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ کون کیا چاہتا ہے۔ اگر مذکرات نا کام ہوتے تو قانون کو حرکت میں لاتے۔ اس وقت احتجاج کی کال دینے والوں نے لاہور میں پولیس والوں پر حملہ کر دیا جس سے ابھی تک سو سے زیادہ پولیس والے زخمی ہیں اور کہا جاتا ہے کچھ کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ادارے کمزور کیوں ہیں۔ ابھی تو صوبے پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا رونا ختم نہیں ہوا تھا کہ احتجاج نے پنجاب سارے کو لپیٹ میں لے کر شہریوں کا گھروں سے نکلنا دوبھر کر رکھا ہے۔ بچے سکولوں کالجوں میں نہیں جا سکے ،مریض اسپتال نہیں جا سکے۔ اس کے جو بھی قصور وار ہیں وہ سخت سزا کے مستحق ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں سڑکوں کو بند کرنے کے لیے جگہ جگہ کنٹینر لگا رکھے ہیں۔ کیا حکومت کے پاس احتجاج کرنے والوں کو روکنے کیا یہی آخری حربہ تھا،اب احتجاج کے نام پر عوام کنٹینروں کے سیلاب کو دیکھ رہے ہیں۔ عوام اور حکومتی مشینری بے بس دکھائی دے رہی ہے۔احتجاج کے نام پر عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں پاؤ گوشت کیلئے بھینس ذبح کر دی ہو۔ دس نومبر کو گھر سے اسلام آباد ایکسپریس وے کے راستے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی جانب روانا ہوا تو نہ ہمیں ٹریفک پولیس نے ایکسپریس پر جانے سے نہیں روکا اور نہ ہی میڈیا پر سرکار نے بتایا کہ آج سے ہی کوئی کار بس ٹرک موٹروے اور اسلام آباد ایکسپریس سے نہیں گزرے گا۔ سرکار نے عوام کو نہیں بتایا تھا کہ یہ راستہ کنٹینر لگا کر بند ہو چکے ہیں۔ لہٰذا عوام گھروں میں رہیں، بچے سکولوں کالجوں ،عوام سرکاری یا پرائیوٹ کاموں کیلئے گھروں سے نہ نکلیں ،جنھوں نے بیمار ہو کر اسپتالوں میں جانا ہے وہ اپنا پروگرام کینسل کر دیں اور نہ جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک جماعت کو سخت غصہ ہے اسرائیل پر مگر اب تو جنگ ختم ہو چکی ہے اب یہ احتجاج کیسا غصہ کیسا۔ کہا جاتا ہے لڑائی کے بعد اگر غصہ آئے تو اسے مکا اپنے منہ پر مار لینا چاہئے ۔اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں دھرنے دیئے گئے۔ جن کے رزلٹ آج تک سب کو یاد ہیں۔لہذا احتجاج کو روکنے کے نام پر سرکار اس کا حل یہ نکالا کہ اسلام آباد کو جانے والے راستوں کو فوری کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے یہ احتجاج والے ابھی لاہور میں تھے کہ اسلام آباد کو سیل کر دیا گیا سرکار نے نہیں سوچا کہ عوام بچارے کن کن مشکلات سے گزریں گے۔اگر سرکار اپنے ارادوں سے عوام کو پہلے سے آگاہ کردیتے تو عوام سڑکوں پر ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ لیکن اس سائنسی دور میں سائنس سے سرکار نے کچھ حاصل نہ کیا۔ اگر احتجاج کرنے والوں کو لاہور میں ہی کنٹینر لگا کر ان کا بندوبست بکر لیتے تو موٹر وے کی ٹریفک کو بند نہ کرنا پڑتا۔ یہ احتجاج کرنے والے ماضی میں بھی اسلام آباد آتے رہے ہیں ۔ یہ اس لئے آتے تھے کہ یہ سرکار کے اشاروں پر تھے۔ احتجاج کے خاتمے کے وقت
ان میں کیش تقسیم کیا گیا تھا۔ اب عوام کوان پر غصہ آتا ہے جو ان حالات میں ٹریفک کا پلان تیار کرتے ہیں۔ جو وقت سے پہلے کنٹینر لگاتے ہیں۔ جب کہ کوئی احتجاج کرنے والا نہیں ہوتا اور پھر بھی عوام مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسا کیوں۔ یہ رجحان جمہوری اداروں کی کمزوری اور امن و امان کے غیر مستقل ڈھانچے کو ظاہر کرتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں احتجاج کے دوران پولیس اور شہری نظم و ضبط پر انحصار کرتے ہیں۔ کنٹینر نہیں۔ترقی پذیر ممالک میں یہ عمل اکثر طاقت کے مظاہرے یا خوف کے ذریعے کنٹرول کی علامت سمجھاجاتا ہے ۔ دنیا کے ممالک احتجاج کو کیسے روکتے ہیں۔ آؤ اس پر بات کرتے ہیں۔سڑکوں کو کنٹینر رکھ کر بند کرنا یا ٹریفک کو سرکاری طور پر روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنا ایک غیر معمولی مگر بعض اوقات استعمال ہونے والا عمل ہے۔ خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں سیاسی مظاہرے، دھرنے یا سکیورٹی خدشات عام ہوں۔دنیا میں یہ رجحان چند مخصوص ممالک میں زیادہ دیکھا گیا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ریاستوں میں۔ چند نمایاں مثالیں اس کی یہ ہیں ۔ پاکستان اسلام آباد، لاہور، پشاور وغیرہ میں اکثر دھرنوں یا احتجاج کے دوران حکومت کی جانب سے کنٹینر رکھ کر راستے بند کیے جاتے ہیں۔خاص طور پر پارلیمنٹ ہاؤس، ڈی چوک، یا ریڈ زون کے اردگرد۔ کنٹینر رکھے جاتے ہیں۔اسی طرح بھارت کسان احتجاج کے دوران دہلی کی سرحدوں پر حکومت نے بڑی تعداد میں کنٹینر، لوہے کی جالی اور
بیریکیڈز لگا کر راستے بند کیے۔ بنگلہ دیش ڈھاکہ میں سیاسی ریلیوں یا حکومت مخالف مارچ کے موقع پر پولیس اکثر کنٹینر، ٹرک یا ریت سے بھرے ڈرم استعمال کرتی ہے تاکہ مظاہرین کو روک سکے۔ مشرقِ وسطی ایران حکومت بعض اوقات احتجاج روکنے کے لیے بڑی شاہراہیں کنٹینر یا فوجی گاڑیوں سے بند کرتی ہے۔لبنان معاشی بحران اور احتجاج کے دوران سڑکیں بند کرنے کے لیے کبھی کبھار یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔افریقہ مصر قاہرہ اور دیگر شہروں میں2013کے بعد سیاسی مظاہروں کے دوران فوج اور پولیس نے کنٹینر یا بیریکیڈز لگا کر راستے بند کیے۔ سوڈان احتجاج یا بغاوت کے دنوں میں کنٹینر اور فوجی رکاوٹوں سے سڑکیں بند کرنے کا رجحان رہا ہے۔ مغربی ممالک اور امریکہ میں صرف ہنگامی حالات یا G20/NATO جیسے بڑے اجلاسوں میں سکیورٹی زون بنانے کے لیے عارضی کنٹینر یا فولادی رکاوٹیں استعمال کی جاتی ہیں، لیکن روزمرہ سیاسی احتجاج میں نہیں۔فرانس، برطانیہ یہاں پولیس عام طور پر لوہے کی بیریئر یا خاردار جالی استعمال کرتی ہے، کنٹینر نہیں۔ کنٹینر سے سڑک بند کرنے کا رجحان بنیادی طور پر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ایران، لبنان، مصر، سوڈان۔ یہ زیادہ تر سکیورٹی یاسیاسی احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، نہ کہ عام ٹریفک مینجمنٹ کے لیے۔کاش احتجاج کرنے اور سرکار کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ سڑکوں کو بلاک کرنے سے احتجاج کرنے والے نہیں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ راستوں کے بلاک ہونے سے عام شہری کو کئی طرح کی مشکلات پیش آتی ہیں، جن میں ٹریفک جام: ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جانا، جس سے گھنٹوں کی تاخیر ہوتی ہے اور پٹرول کا ضیاع ہوتا ہے۔پھر ایمرجنسی مسائل پیدا ہوتے ہیں ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس کی گاڑیاں متاثر ہوتی ہیں، جس سے جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ دفتر، اسکول اور کاروبار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لوگ وقت پر اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتے، طلبہ اسکول کالج نہیں پہنچتے اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ایندھن کا ضیاع ہوتا ہے گاڑیاں جام میں کھڑی رہنے سے پٹرول یا ڈیزل ضائع ہوتا ہے، جس سے مالی نقصان ہوتا ہے اور ٹینشن سے صحت خراب ہوتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی گاڑیوں کے دھوئیں سے فضائی آلودگی بڑھ جاتی ہے، جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ عوامی بے چینی اور ذہنی دبامسلسل تاخیر اور پریشانی سے لوگ ذہنی طور پر تھک جاتے ہیں اور چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تجارت اور معیشت پر اثر سامان کی ترسیل رک جاتی ہے، مارکیٹوں میں سپلائی متاثر ہوتی ہے، اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ سرکار کو ان کالی بھیڑوں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا جو انہیں احتجاج روکنے کا یہ حل بتاتے ہیں کہ سڑکوں موٹر وے کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے۔ یہ احتجاج کو روکنے کا کوئی حل نہیں۔ جو لوگ احتجاج کر کے روذ بلاک کریں ان کے لے قانون سازی کر کے ان کو سخت سے سخت سزائیں دیں۔ ان کو بھی سخت سے سخت سزائیں دیں جو راستوں کو کنٹینروں سے بلاک کرنے کا مشورہ دیتے جو احتجاج کرنے والوں کو نہیں عوام کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چائے۔ اگر باز نہ آئیں تو سخت ایکشن ان کے خلاف لیں مگر انسانی حقوق کو پا مال نہ کریں۔ان خیال رکھنا سرکار کا کام ہے۔ دیکھے کہ پا گوشت کے لیے بھینس تو ذبح نہیں کر رہا۔

Exit mobile version