اسلام آباد کے لوک ورثہ میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کا حالیہ ادبی میلہ بظاہر پوری آب و تاب کیساتھ منعقد ہوا۔ بڑے بینرز، وسیع و عریض مارکیوں، رنگین پروگرام شیڈولز اور پریس ریلیزوں نے اسے ایک بڑے ثقافتی ایونٹ کا تاثر دینے کی کوشش کی۔ کتابوں پر چالیس سے پچاس فیصد تک رعایت رکھ کر اسے کتاب دوست معاشرے کی طرف اہم قدم قرار دیا گیا لیکن جب عملی منظر سامنے آیا تو سارا تاثر دھیرے دھیرے دھندلا گیا اور میلے کا اصل حسن ایک بنیادی سوال میں بدل گیا۔ کیا یہ واقعی ادبی میلہ تھا یا صرف ایک سرکاری سرگرمی؟مارکیوں کا سائز بڑا تھا مگر ان میں بیٹھنے والوں کی تعداد افسوسناک حد تک کم رہی۔ کئی نشستیں خالی کرسیوں سے شروع ہوئیں اور خالی کرسیوں پر ختم ہوئیں۔ جہاں بڑے ہجوم کی توقع تھی، وہاں چند درجن لوگ بھی مکمل توجہ کے ساتھ موجود نہ تھے۔ گویا مقصد صرف نام کا ایونٹ پورا کرنا تھا، ادب کا جشن منانا نہیں۔یہ صورتحال اچانک نہیں پیدا ہوئی بلکہ برسوں سے جاری ادارہ جاتی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے سرکاری ادبی ادارے ایک ایسے دائرے میں بند ہو چکے ہیں جہاں ادب نہیں بلکہ تعلقات، سفارش، گروہ
بندی اور پسند و ناپسند فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ جب کسی ادبی نشست میں اس لیے جگہ نہ ملے کہ آپ ادارے کے منظورِ نظر حلقے میں شامل نہیں، تو یہ ادارے ادب کو نہیں بلکہ اپنے مخصوص نیٹ ورک کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔اس بار بھی میلے میں چند دکھاوے کی تبدیلیوں کے ساتھ وہی مخصوص چہرے، وہی مخصوص نام اور وہی چند مقرر دوبارہ سامنے آئے جنہیں ہر سال بغیر کسی نئے جواز کے مسلسل مدعو کیا جاتا ہے۔کچھ نمائندگان انجمن ستائش باہمی کی بدولت براجمان تھے۔ دوسری طرف ملک کے حقیقی ادیب، جنہوں نے گزشتہ دہائیوں سے معیاری کام پیش کیا، جنہوں نے ادب میں تازہ فکری جہتیں پیدا کیں، جنہوں نے نئے راستے کھولے۔ انہیں نہ دعوت ملی نہ ان کی کتابوں کا کوئی نمایاں گوشہ رکھا گیا۔ اس عدم توازن نے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا کہ سرکاری ادارے ادب کے فروغ کے بجائے ایک ہی دائرہ میں سرگرم رہنا پسند کرتے ہیں۔اگرچہ میلے کو قومی کہا گیا لیکن اس میں قومی تنوع بہت حد تک غیر موجود رہا۔پاکستان کے لسانی ورثے سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، براہوی، شنا، بلتی اور دیگر زبانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بلوچستان اور گلگت بلتستان سے آنے والے ادیبوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ ایسے ایونٹ کو قومی کہنا شاید اس لیے آسان ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر اسے ایسا قرار دے دیا جائے، لیکن قومی حیثیت اس وقت بنتی ہے جب پورا ملک اپنی اکائیوں سمیت اس کا حصہ ہو، محض چند خاص لوگوں کی موجودگی اسے ملک گیر نہیں بنا دیتی۔میلے کا سب سے افسوس ناک پہلو بجٹ کی شفافیت کا نہ ہونا ہے۔لاکھوں روپے کس مد میں خرچ ہوئے، کون سی لائبریریاں یا پبلشرز کن شرائط پر شریک ہوئے، کن کو رعایتی اسٹال ملے، کن کو نہیں۔ اس کی تفصیل دستیاب نہیں۔ اس پہلو سے کون احتساب کرے گا۔ کتب کی مفت یا کچھ رقم دے کر اشاعت بھی سفارشی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں فنونِ لطیفہ کے لیے پہلے ہی بجٹ انتہائی محدود ہے، وہاں اس قدر بڑے بجٹ کے استعمال پر غیر شفافیت خود ایک سوال بن جاتی ہے۔ جب کتاب کلچر کے فروغ کے نام پر خرچ ہونے والا پیسہ نتائج نہ دے، تو یہ ادبی ترقی نہیں بلکہ وسائل کی عدم افادیت بن جاتی ہے۔اسکے برعکس آپ پاکستان کے کسی بھی شہر کی متحرک ادبی تنظیموں کا جائزہ لے لیں۔ کراچی، لاہور، پشاور، سوات، کوئٹہ، سکھر، بہاولپور، ملتان ہر جگہ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بغیر بجٹ کے اپنی ذاتی کاوشوں اور محنت سے ایسی بھرپور اور زندہ محفلیں منعقد کرتی ہیں کہ لوگ خود چل کر آتے ہیں۔ وہاں نہ بڑی مارکیوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ بلند بانگ دعوؤں کی؛ صرف خلوص، میرٹ اور ادب کی سچی قدر موجود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادیب اور شاعر ان اداروں کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ یہاں انہیں عزت، سنجیدہ گفتگو اور عملی موقع ملتا ہے، نہ کہ خالی رسمی پن یا مخصوص گروہوں کی اجارہ داری۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کے میلے کی ناکامی اس حقیقت کی کھلی علامت بن گئی ہے کہ ادبی ادارے اپنے بنیادی مقصد سے دور ہو چکے ہیں۔ جب تک ادارے میرٹ پر فیصلے، صوبوں کی حقیقی نمائندگی، نئے لکھنے والوں کی
حوصلہ افزائی، بجٹ کے شفاف استعمال اور فکری تنوع کو اپنی ترجیح نہیں بنائیں گے، تب تک بڑے بڑے خیموں میں ہونے والے میلے صرف نمائشی سرگرمیاں رہ جائیں گے۔ ادب کبھی نمائشی دیواروں سے نہیں زندہ رہتا؛ ادب تخلیق کار کی عزت، اظہار کی آزادی اور اداروں کی سنجیدہ نیت سے زندہ رہتا ہے۔اگر کتاب کلچر کو واقعی فروغ دینا ہے تو سب سے پہلے اداروں کو اپنے رویے، اپنی ترجیحات اور اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ ادب سفارشی کلچر کے بوجھ تلے نہیں پنپ سکتا۔اسکے لیے شفافیت، میرٹ، احترام، وسعتِ نظر اور اخلاص درکار ہے۔ ورنہ یہی صورتحال رہے گی کہ سرکاری تقریبات میں خالی کرسیاں سجی ہوں گی اور اصل ادبی محفلیں شہر کے کسی گوشے میں محدود وسائل کے ساتھ مگر پوری زندگی کے ساتھ جاری رہیں گی۔ادب کو زندہ رکھنے کے لیے بڑے بجٹ نہیں بلکہ بڑے دل، وسیع سوچ اور منصفانہ رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیشنل بک فانڈیشن کے اس میلے نے یہ سبق ایک بار پھر دہرا دیا ہے کہ بڑے خیمے لگانے سے بڑے ایونٹ نہیں بنتے۔ بڑے ایونٹ ادب کا احترام، تخلیق کار کی قدر اور میرٹ کی بنیاد پر بنتے ہیں۔ ادب وہاں پروان چڑھتا ہے جہاں سچائی کو جگہ ملے، نہ کہ پسند و ناپسند کو۔
این بی ایف کا ادبی میلہ،بڑے خیمے، چھوٹی آوازیں

