Site icon Daily Pakistan

بیانات سے آگے کی ضرورت

وزیراعظم پاکستان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور اقوامِ متحدہ میں تقریر عالمی سطح پر ایک غیر معمولی لمحہ ثابت ہوئی۔ واشنگٹن میں ہونے والی اس نشست نے دنیا بھر کے اخبارات اور تجزیہ نگاروں کو گفتگو کا نیا موضوع فراہم کیا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں نہ صرف امریکہ کو سرمایہ کاری کی دعوت دی بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دیتے ہوئے نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ بظاہر یہ الفاظ پاکستان کی طرف سے تعلقات کی نئی بنیاد رکھنے کی کوشش تھے۔
امریکی میڈیا نے اس ملاقات کو خاصی نمایاں کوریج دی۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے لکھا کہ وزیراعظم پاکستان نے امریکی سرمایہ کاروں کو معدنیات اور توانائی کے شعبے میں مواقع فراہم کرنے پر زور دیا۔ اسی دوران ٹائم میگزین نے رپورٹ کیا کہ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بھارت کے ساتھ مئی 2025 کی جنگ بندی کے بعد امن کا سہرا باندھتے ہوئے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔ یہ تعریف اگرچہ سفارتی سطح پر ایک خوشگوار اشارہ تھی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک تضاد بھی نمایاں ہوا۔ اگلے ہی دن پاکستان نے ٹرمپ کے ایران پر فضائی حملوں کی شدید مذمت کی، جیسا کہ رائٹرز ہی نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی۔ یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو ایک پیچیدہ سفارتی پوزیشن کا سامنا ہے جہاں امریکہ کے ساتھ قربت بڑھانا اور ایران جیسے ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا دونوں ایک ہی وقت میں درکار ہیں۔ دوسری طرف دی گارڈین نے اپنے تجزیے میں ٹرمپ کے اس دعوے پر سوال اٹھایا کہ پاکستان کے زیرِ زمین تیل کے بڑے ذخائر دریافت ہونے والے ہیں۔ اخبار نے واضح کیا کہ ایسے دعوے ماضی میں بھی کیے گئے مگر کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔ یہ بات ہمارے لیے سبق ہے کہ سیاسی بیانات اور عملی منصوبے میں فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا کہ امریکہ اور پاکستان نے توانائی اور تجارتی شراکت داری پر بات چیت کی ہے، لیکن یہ معاہدے کاغذ سے نکل کر عمل کی دنیا میں کب اور کیسے آتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔بھارت نے حسبِ توقع سخت ردعمل دیا۔ ہندوستان ٹائمز نے بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان کو نمایاں کیا جس میں کہا گیا کہ کوئی بھی تیسری قوت کشمیر یا خطے کے معاملات میں ثالث نہیں بن سکتی۔ بھارت نے پاکستانی وزیراعظم کی تقریر کو ڈرامائی بیانیہ قرار دیا۔ یہ ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ اسلام آباد نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دینے کی کوشش کی، مگر خطے کے اندر اس کے اثرات متنازعہ ہی رہیں گے۔یہ پس منظر یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کی سفارتکاری آج ایک نازک مقام پر کھڑی ہے۔ ایک طرف چین کے ساتھ قریبی شراکت داری ہے، جیسا کہ الجزیرہ نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ سی پیک پاکستان کی معاشی حکمتِ عملی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن کی دلچسپی بڑھ رہی ہے جو توازن قائم رکھنے کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔ مشرقِ وسطی کی صورتحال، خصوصا ایران و اسرائیل کشیدگی، اس پیچیدگی کو اور بڑھا دیتی ہے۔ پاکستان کو یہاں دو دھاری تلوار پر چلنا ہوگا تاکہ کسی ایک کیمپ کا حصہ بننے کی بجائے متوازن خارجہ پالیسی برقرار رکھ سکے۔
آخر میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ وزیراعظم کی ملاقات اور تقریر پاکستان کے لیے ایک موقع ہے۔ لیکن موقع کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ بیانات پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ شفاف سرمایہ کاری، واضح حکمتِ عملی اور بروقت عملی اقدامات کیے جائیں۔ قوم کو تقاریر نہیں، نتائج درکار ہیں۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر آنے والے دنوں میں اس ملاقات کی کامیابی کو پرکھا جائے گا۔ یہ ملاقات بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے، مگر اس موقع کو حقیقت میں بدلنے کے لیے صرف خوش نما بیانات کافی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر معاہدہ شفاف ہو تاکہ عوامی اعتماد بحال رہے اور شکوک کی گنجائش نہ بچے۔ ریاستی سطح سے لے کر صوبائی اور انتظامی ڈھانچے تک باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ فیصلوں پر یک جہتی کے ساتھ عمل درآمد ممکن ہو۔ خارجہ پالیسی میں مستقل مزاجی اور توازن بھی ناگزیر ہے؛ امریکہ کے ساتھ روابط بڑھانے کے ساتھ ساتھ چین، سعودی عرب اور ایران جیسے اہم شراکت داروں سے تعلقات پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب وقت تقاریر کا نہیں بلکہ منصوبہ بندی، معاہدہ بندی اور بروقت عملی اقدامات کا ہے، کیونکہ قوم کو بیانات سے نہیں بلکہ نتائج سے امید ہے۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر اس ملاقات کی کامیابی کو تاریخ یاد رکھے گی۔

Exit mobile version