وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکہ اور چین کے صدور نے یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جوہری ہتھیاروں کی جنگ کبھی نہیں لڑی جانی چاہیے، نہ ہی وہ جیتی جا سکتی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے سی این این کے مطابق یہ ملاقات انڈونیشیا میں بالی کاے مقام پر ہوئی، جو کہ دونوں صدور کے مابین پہلی بالمشافہ ملاقات تھی ۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات اس دوران ہوئی جب تایوان سمیت دیگر معاملات میں چین اور امریکہ سرد مہری جاری ہے ۔
امریکی میڈیا کے مطابق جی 20 کانفرنس میں بھی دونوں صدور کے مابین سائڈ لاین بات تین گھنٹے تک جاری رہی ،چینی میڈیا کے مطابق چینی صدر نے اپنا دو ٹوک مؤقف دیا کہ تائوان ہماری ریڈلاین ہے ، یہ عبور نہیں ہونی چاہئے۔میڈیا کے مطابق انہوں نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ تائوان کا مسئلہ چین امریکہ تعلقات کی بنیادی اساس ہے ۔
صدر جو بائڈن نے ملاقات کے بعد یہ واضح کیا کہ امید ہے چین تائوان پر حملہ نہیں کرے گا، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے بے شمار معاملات حل نہیں ہوئے لیکن کوئی نئی سرد جنگ شروع نہیں ہو رہی ۔
انہوں نے کہا کہ اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ انہوں نے کھل کر بات چیت کی، ان موضوعات کا بھی احاطہ کیا جس پر واشنگٹن اور بیجنگ متفق نہیں ہیں لیکن وہ اور شی جن پنگ فی الحال درپیش مسائل کو حل کرنے کے قریب نہیں آئے ہیں جب کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ماضی کی نسبت کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔
ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں امریکی صدر نے کہا کہ شی جن پنگ بھی واضح تھے اور میں بھی واضح تھا کہ ہم امریکی مفادات و اقدار کا دفاع کریں گے، عالمی انسانی حقوق کو فروغ دیں گے، بین الاقوامی نظام کے لیے کھڑے ہوں گے اور اپنے اتحادیوں و شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
صدر جوبائیڈن نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ان کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن چین کا دورہ کریں گے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق جوبائیڈن اور شی جنگ پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات کی بابت وائٹ ہاؤس نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر نے انسانی حقوق اور تائیوان کے گرد چین کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
جوہری ہتھیاروں کی جنگ کبھی نہیں لڑی جانی چاہیے، نہ ہی وہ جیتی جا سکتی ہے، چین امریکہ صدور

جوہری ہتھیاروں کی جنگ کبھی نہیں لڑی جانی چاہیے، نہ ہی وہ جیتی جا سکتی ہے، چین امریکہ صدور