Site icon Daily Pakistan

غزہ : امریکہ کا تیسری بار جنگ بندی قرارداد پر ”ویٹو حملہ”

اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ ”قبرستان” بن چکا ہے۔ زندگی کو تحفظ نہیں’ اہل فلسطین اپنے ہی آزاد ملک میں آزادی سے سانس نہیں لے سکتے ۔139دن سے جاری آگ اور خون کے اس بے رحم کھیل میں 29ہزار 870مسلمان شہادت کے درجے پر فائز ہو چکے، زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ غزہ کا ناصر ہسپتال ملبے کا ڈھیر اور موت کا منظر نامہ پیش کررہا ہے۔ 20 فروری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پیش ہوئی۔ طویل بحث ومباحثے کے بعد قرارداد سے متعلق رائے شماری ہوئی تو جمہوریت کے علمبردار برطانیہ کا نمائندہ ”غائب” ہوگیا وہ ووٹنگ میں شامل نہ ہوسکا۔ 15رکن ممالک نے فوری جنگ بندی کے حق میں ووٹ دئیے۔ قرارداد کے حق میں انصاف پسندوں کی حمایت اور جھکا دیکھ کر انسانی حقوق کے پاسبان امریکہ نے قرارداد ویٹو کر دی۔ قارئین کو ہم بتاتے چلیں کہ سلامتی کونسل کے 5 ممالک چین’ برطانیہ’ فرانس ‘روس اور امریکہ کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ یہ پانچ ممالک وجہ بتائے بغیر قرارداد کو ویٹو قرار کر کے رائے شماری (ووٹنگ) رکواسکتے ہیں۔ یوں سلامتی کونسل کااہم ترین فورم اس درپیش معاملے کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ 139 دن میں یہ تیسرا موقع ہے جب امریکہ کے انصاف پسند’ جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے جنگ بندی قرارداد کو پاں تلے روندایہ بھی یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ 58 اسلامی ممالک میں کسی مسلم ریاست کے پاس ویٹو پاور کا اختیار نہیں۔ یہ ہے مسلمان ممالک کی حمیت اتفاق اور طاقت کی ایک جھلک!!فلسطین مسلسل بارود کی زد میں ہے۔ پوری آزاد ریاست پر خوف اور جنگ کے بادل موجود ہیں اور مسلم حکمران خواب غفلت کا شکار ہو کر آخری فلسطین کی شہادت کا انتظار کررہے ہیں۔چار دن قبل جارج پیس کے عالمی ایونٹ میں ہلیری کلنٹن کو امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی غیر ضروری اور غیر مشروط حمایت کرنے پر دوران تقریب خاتون نے سخت ترین سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ”امریکہ انصاف کا قاتل، جنگ بندی ہونی چاہیے اور امریکہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ دینا چھوڑ دے” اس قسم کے نعرے پہلے صرف ایک خاتون کے تھے پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب شرکا احتجاجی خاتون کے ہم زبان بن گئے۔ منتظمین کو مشکل سے صورت حال سنبھالنا پڑی۔ سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ کب تک اسرائیل کی جانب داری سے اپنے ہاتھ فلسطینی خون سے رنگت رہے گا۔مشہور اسرائیلی جنرل میٹی پیلڈ نے 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی اور اسرائیل فوج نے اردن کے مغربی کنارے ، گولان کی پہاڑیوں اور وادی سینا پر قبضہ کرلیا۔ اسی جنرل کے بیٹے مائک پیلڈنے اسرائیل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے اس نے اکتوبر 2010 میں ایک کتاب’ ‘جنرل کابیٹا” لکھی۔ جس میں اس نے ثابت کیا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو فلسطین کی سرزمین پر مغربی ممالک اور امریکہ کی سازش سے قائم کی گئی ہے۔اس نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑاہے اور یہ بتایا ہے کہ فلسطینیوں پر بے حد ظلم ہو رہا ہے اور اگر اس علاقہ میں دیرپا امن قائم کرنا ہے تو فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔ اس نے دنیا کے تمام ملکوں کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کیا اور اپنی تقریروں اور مذاکروں میں شرکت کرکے فلسطینیوں کا موقف سمجھایا ہے۔ اس کی ان کوششوں کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہوئی۔ اس کو دنیا بھر سے دعوت نامے موصول ہوئے اور وہاں جا کر اس نے اپنی کتاب کا خلاصہ بیان کیا اور کہا کہ اب اس کی زندگی کا مقصد فلسطینیوں کے حق میں رائے عامہ استوار کرنا ہے۔ تاکہ اسرائیلی ظلم و بربریت کو لگا م دی جا سکے۔اس نے 24ستمبر 2014 کو امریکہ کے شہر میمفس کا دورہ کیا اور میمفس اسلامک سینٹرکی مسجد میں تقریر کی اور کہا کہ اگر تمام مسلم ممالک جن کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے اور غیر مسلم ملکوں میں آباد تمام مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں تو ناجائز اسرائیلی ریاست کو اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ان دنوں میں اپنے بیٹے جنید کو ملنے میمفس آیا ہوا تھا۔ اس لئے مائیکو پیلڈ کی تقریر سننے ، اس سے ملنے اور اس کی کتاب خریدنے کا موقع مل گیا۔ جنید نے اس سے سوال کیا کہ اس جیسے خیالات رکھنے والوں کی تعداد اسرائیل میں کتنی ہے؟ اس نے جواب دیا دس فیصد سے زیادہ نہیں ہے لیکن یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔مائیکو پیلڈ کو کتاب لکھنے اور فلسطین کی ریاست کے حق میں آواز بلند کرنے کا خیال ایک حادثہ کے بعد آیا۔ 4 ستمبر 1997 کو مائیکو پیلڈ کی 13 سالہ بھانجی سمادرجو اس کی بڑی بہن نورت کی بیٹی تھی ۔ یروشلم میں ایک خودکش حملہ میں ہلاک ہوگئی۔یہ خود کش حملہ دو نوجوان فلسطینیوں نے کیا تھا۔ اگلے روز اسرائیلی حکومت کے سرکردہ سول اور فوجی رہنماﺅں نے سمادر کی آخری رسومات میں شرکت کی کیونکہ سمادر اس جنرل کی نواسی تھی جس نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں بے شمار کامیابیاں دلائی تھیں۔ جنرل میٹی پیلڈ کا دو سال پہلے 1995 میں انتقال ہوگیا تھا۔مائیکو پیلڈ کو اس خود کش حملے نے ہلاکر رکھ دیا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ فلسطینی نوجوان اسرائیل پر خودکش حملے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مائیکو نے اسی لمحے فیصلہ کرلیا کہ وہ فلسطینیوں کا مقف جاننے کی کوشش کرے گا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ وہ بچپن سے یہی سنتا اور پڑھتا چلا آرہا تھا کہ اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کیخلاف کر رہا ہے وہ بالکل جائز ہے کیونکہ وہ یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کررہا ہے۔ مائیکو نے سوچا ہو سکتا ہے کہ یہ آدھا سچ ہو۔پورا سچ جاننے کےلئے اس نے غزہ جا کر فلسطینیوں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی کار میں بغیر اسلحہ کے اسرائیل اورغزہ کی سرحد عبور کی۔ چیک پوسٹ پر اس کو اسرائیلی فوجیوں نے بہت سمجھایا کہ وہ موت کے منہ میں جا رہا ہے اور غزہ سے زندہ واپس نہیں آسکے گا لیکن وہ نہ مانا ۔ جب وہ غزہ کی چیک پوسٹ پر پہنچا تو فلسطینیوں کو اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ نہتا آیا ہے اور مقصد فلسطینیوں کا موقف معلوم کرنا ہے کہ آخر اسرائیل اور فلسطین کا جھگڑا کیا ہے اور کون حق پر ہے؟فلسطینیوں نے اسے خوش آمدید کہا ۔اپنے لیڈروں سے ملاقات کرائی اور فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل جو زیادتیاں کر رہا ہے اس کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔مائیکو ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور وعدہ کیا کہ وہ یہاں آتا رہے گا اوران کے مقف سے دنیا کو آگاہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ مائیکو نے اپنا وعدہ نبھایا۔ وہ بے شمار مرتبہ غزہ گیا اور فلسطینیوں سے ملاقاتوں میں جو کچھ اسے معلوم ہوا ، دنیا کو بتانے کےلئے’ ‘جنرل کابیٹا” کتاب لکھی۔ اس کی یہ کتاب دنیا بھر میں بہت مقبول ہوئی۔ اسے دنیا کے تقریبا تمام ممالک سے دعوت نامے موصول ہوئے کہ اس کتاب کا خلاصہ اور اپنا مقف ذاتی طور پر لیکچر کی صورت میں پیش کرے۔ چنانچہ اس وقت شائد ہی دنیا کا کوئی ایسا بڑا ملک ہوگا جہاں مائیکو نہ گیا ہو۔ اس نے فلسطینیوں پر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم سے دنیا کو آگاہ کرنا اپنا مشن بنا لیا ہے۔اسرائیل کی حکومت کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کے بعد وہ مستقل طور پر امریکہ میں آباد ہوگیا ہے۔ اس وقت ا س کی عمر 62 سال ہے۔سعودی عرب ‘ ترکی ‘ ایران ‘ پاکستان اور بااثر مسلم ممالک آگے بڑھیں ۔یہ وقت مشاورت اور مسلم فورم پر قراردادوں منظور کرنے کا نہیں عملی قدم اٹھانے کا ہے !مسلمان حکمرانوں کی کمزوریوں اور نااتفاقی کے باعث امت کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اور یہ بے بسی کا منظر اس وقت جاری رہے گا جب تک ہم طاقت ور اور یک جان نہیں ہو جاتے! ناصر کاظمی یاد آگئے
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سابے درد کوئی کیا ہوگا

Exit mobile version