سڑک کنارے کسی سیاستدان کا قد آدم پوسٹر اسے بہت بڑا بنادیتا ہے،ہر آنے جانے والا،اسے دیکھتا ہے اور اسے بڑا آدمی تصور کرتا ہے، ہر کوئی اس کے بارے میں بات کرتا ہے، مگر اس اشتہار بازی میں بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں، اس کے برعکس سوشل میڈیا پر یہی کام مفت ہوجاتا ہے جبکہ ہزاروں لاکھوں چھوٹے چھوٹے امیجز اور فقروں سے وہی رزلٹ لیا جاتا ہے جو قد آدم بل بورڈز لگا کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کا یہی فرق ہے کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر نہ صرف اشتہار بازی،بلکہ پراپیگنڈہ کی بھی بھرمار کر رکھی ہے جبکہ ن لیگ مریم نواز جیسی نوجوان قیادت سامنے لانے کے باوجود بھی ابھی سوشل میڈیا پر اپنا فٹ پرنٹ نہیں بنا سکی ۔ تاہم اس سلسلے میں موجودہ صورت حال پہلے سے بہت حوصلہ افزا ہے اور ن لیگ کے سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے یہ پریکٹس جاری رہی تو اگلے عام انتخابات تک زمین پر صورت بہت حد تک بدل چکی ہوگی۔تاہم ن لیگ اور پی ٹی آئی کی قیادت کا بنیادی فرق یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس گڈ گورننس کا پریکٹیکل تجربہ بالکل نہیں ہے، جبکہ ن لیگ کی قیادت کے کریڈت پر گزشتہ 35برس کا تجربہ موجود ہے اور اسی فرق کی بنا پر سوشل میڈیا کے بھرپور پراپیگنڈے کے باوجود ن لیگ نہ صرف 2024 کے عام انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے بلکہ کامیابی کے ساتھ گڈ گورننس کو یقینی بناتی نظر آ رہی ہے۔
مہنگائی کا ایک حل یہ ہوتا ہے کہ ماہرین آپ کو اپنی بنیاد پر واپس جانے کا مشورہ دیتے ہیں، یعنی امیر ہونے سے پیشتر آپ جس طرح اپنی زندگی بسر کرتے تھے اور گزارہ کرتے تھے، دوبارہ سے وہی طور طریقے اپنالیں تو آپ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یہی فارمولہ سیاست میں بھی کارگر ثابت ہوتا ہے کہ جب مخالف کی مقبولیت کا سامنا ہو تو آپ ان بنیادی کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرلیں جو آپ نے سیاست میں اپنے آپ کو مقبول بنانے کیلئے کئے ہوتے ہیں،ن لیگ بھی تیس برس اقتدار میں رہنے کے بعد آج اپنی مقبولیت کو سہارا دینے کیلئے اپنی basics پر چلی گئی ہے اور مہنگائی پر قابو پانا شروع کر دیا ہے۔ ن لیگ اور نواز شریف کو لے کر بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف اس وقت میڈیا کے ڈارلنگ بنے ہوئے ہیں۔ نواز شریف کی خاموشی، مریم نواز کی مسکراہٹ اور شہباز شریف کا عزم صمیم مخالفین کا دم نکالے ہوئے ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ ن لیگ نے اس قدر ووٹ بینک نہیں گنوایا، جس قدر بتایا جارہا ہے اور پی ٹی آئی نے اس قدر ووٹ بینک نہیں بنایا جس قدر بتایا جا رہا ہے، کیونکہ لوگ محض بیانئے کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے۔یہ الگ بات کہ پراپیگنڈہ بہرحال اپنا ایک اثر رکھتا ہے، مگر پھر بھی پراپیگنڈہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ عوام میں مقبولیت کھو چکی ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر مرکز اور پنجاب میں اس کی حکومت کیونکرہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک غیر مقبول جماعت برسراقتدار ہو؟ اگر پی ٹی آئی ملک بھر میں مقبول ہوتی تو آج مرکز میں اقتدار میں ہوتی، اس کے برعکس وہ اپوزیشن میں اِس لئے نمایاں ہے کہ مولانا فضل الرحمن اسمبلی میں نہیں ہیں۔ بظاہر کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاسی طور پر غیر متحرک ہو چکے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کہ نواز شریف بالکل ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں، بلکہ وہ مریم نواز کی سیاسی ساکھ کو موثر بنانے کے لئے متحرک ہیں، پھر یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے اگر انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف مرکز میں وزیراعظم اور مریم نواز پنجاب میں وزیر اعلی ہوتیں تو خود اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات گوارہ نہ ہوتی کیونکہ دونوں ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھے جاتے ہیں اور ان کی اقتدار میں موجودگی اسٹیبلشمنٹ کی اہمیت کو گہنائے رکھتی۔اسکے علاوہ اندرون اور بیرون ملک بھی ن لیگ کی مخالفت میں خوامخواہ کا اضافہ ہو تارہتا، اب اگر نواز شریف اقتدار میں نہیں ہیں تو مخالفین کیلئے مریم نواز کو برداشت کرنا قدرے آسان ہے اگرچہ وہ بھولے سے بھی مریم نواز کے اچھے کاموں کو زبان پر نہیں لاتے،جبکہ ان کے خلاف تنقید کی بندوقیں ہر وقت تانے رکھتے ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ پانامہ مقدمے کے دوران ہونے والے پراپیگنڈے اور لندن قیام نے نواز شریف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا۔،اگر وہ ملک میں ہوتے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہوتے تو ان کی پوزیشن مختلف ہوتی،اس کے ساتھ ساتھ 2013 سے 2018 کے درمیان نواز شریف اور ان کے سمدھی اسحاق ڈارکی جانب سے عالمی مخالفت کے باوجود جو اقدامات کیے گئے ان کے سبب نہ صرف وہ خود، بلکہ اسحاق ڈار بھی وزیر خزانہ کا عہدہ نہیں پا سکے، وہ آئی ایم ایف کو قابل قبول نہ تھے جسکی مخصوص وجوہات تھیں جن میں ایک توڈار صاحب کے کچھ غیر ذمہ دارانہ بیانات تھے اور دوسرا سبب نواز شریف اور اسحاق ڈار کا امریکی ڈالر کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں 100روپے پر باندھ کر رکھنا تھا۔ وگرنہ ایک پارٹی جس نے نواز شریف کے نام پر ووٹ لیا، وہ کیسے مان گئی کہ نواز شریف کے بغیر حکومت بنا لے گی، خاص طور پر جبکہ نواز شریف پارلیمنٹ میں بھی موجود تھے۔ دراصل یہ نواز شریف کا اپنا ہی فیصلہ تھا، کیونکہ نواز شریف مریم نواز کو قابل قبول بنانے کے لئے زیادہ سنجیدہ ہیں۔ خود ن لیگ بھی اسکی حامی ہے کہ پارٹی کا چہرہ مریم کے علاوہ کوئی اور نہ ہو جبکہ مریم نواز کی قیادت کو تسلیم نہ کرنے والے میاں نواز شریف کے با اعتماد اور قریبی ساتھی سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت ذوالفقار کھوسہ کی شکل میں علیحدہ ہو چکے ہیں۔