ایس کے نیازی
سیاست کا بنیادی کام معاشرے کی فالٹ لائنز کو بھرنا ہے لیکن ہماری سیاست شعوری یا لاشعوری طور پر معاشرے کی فالٹ لائنز کو نمایاں کرتی جا رہی ہے۔ دکھ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب یہ کام خود وزیر اعظم کر رہے ہوں۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ جناب وزیر اعظم پاکستان اپنی تقاریر میں جب اپنے سیاسی حریف عمران خان کے نام کے ساتھ نیازی لگاتے ہیں توا ن کا مقصد کیا ہوتا ہے؟یہ تو ممکن نہیں کہ وہ عمران خان کو عزت دے رہے ہوں؟ یہ بھی ہم سب کو معلوم ہے کہ عمران خان اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتے جیسے شہباز شریف اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات نہیں لکھتے۔تو کیا شہباز شریف عمران خان کی تضحیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ یا ان کے خیال میں عمران خان کا نیازی ہونا عمران خان کے لیے سبکی کا باعث ہو گا؟ رسول اکرم ۖ کی حدیث ہے کہ” اپنے مخاطب کو ہمیشہ اچھے نام سے پکارا کرو”پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے کو سمجھنے والوں کو معلوم ہے کہ نیازی خاندان ایک بہت بڑا اور قابل احترام خاندان ہے۔ اس خاندان نے ہر شعبے میں قابل فخر شخصیات پیدا کی ہیں۔اس قابل احترام خاندان سے تعلق پر کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔اور نیازی قبیلے کی سیاستدانوں نے ملکی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ، جبکہ عسکری میدان میں کئی جنرل مادر وطن کا دفاع کرتے رہے اور شہداء کی فہرست میں بھی میرے کئی عزیز شامل ہیں، میرے سسر جنرل ہدایت اللہ خان نیازی 65کے ہیرو تھے اور ستارہ جرات حاصل کر چکے ہیں، میں خود حکومت پاکستان سے تمغہ امتیاز لے چکا ہوں اور نیو کلیئر رپورٹنگ پر بھی پاکستان کا واحد صحافی ہوں جس کو اعلیٰ سطحی ایوارڈ دیا گیا، نیازی قبیلے کی اس ملک کیلئے بہت بڑی قربانیاں ہیں اور مجھے اپنے نیازی ہونے پر ہمیشہ فخر رہا ہے ، گزشتہ روز قمر مشانی ضلع میانوالی میں عمران خان کا ایک بہت بڑ ا جلسہ عام ہوا ہے ، جس میں شریک عوام کی تعداد دیکھ کر خود تجزیہ نکار حیران رہ گئے مگر رائے عامہ یہ ہے کہ اس میں عمران خان کی فین فالونگ بھی ہو گی مگر معذرت کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس میں آپ کی گفتگو کا شاخسانہ بھی ہے ، کیونکہ نیازی قبیلے کیلئے آپ کے منہ سے کی جانے والی گفتگو کا اثر مثبت کے بجائے منفی پڑ رہا ہے ، نیازی نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور انڈیا میں بھی موجود ہیں اور ہر جگہ منفرد و ممتاز ہیں، البتہ اگر وزیر اعظم کا اشارہ جنرل نیازی کی طرف ہے اور وہ اس نسبت سے عمران خان کو نیازی کہہ کر اپنے تئیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں تو دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ جنرل نیازی ایک بہادر دلیر اور جری جرنیل تھے۔ مغربی پاکستان سے سینکڑوں میل دور ان کی فوج کو بھارت نے محصور کیا ہوا تھا تو مغربی پاکستان سے اسے اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی بند ہو چکی تھی۔ ائر سپیس بھی بند ہو چکی تھی اور بحری راستہ بھی۔ان کی فوج کو نہ خوراک کی سپلائی ممکن تھی نہ ادویات کی۔ ایسے میں شکست کا سارا ملبہ جنرل نیازی پر ڈالنے والے بتائیں کہ ایک محصور جرنیل کو یہاں سے کیا امداد بھیجی گئی؟نہیں بھیجی گئی تو کیوں نہیں بھیجی گئی؟شکست کا جنگی اصولوں کی بنیاد پر تجزیہ کرنا چاہیے نہ کہ کسی قابل فخر قبیلے کے بہادر جرنیل پر سارا ملبہ ڈال دیا جائے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کیا شہباز شریف صاحب نسل پرست سیاست کو ہوا دینا چاہتے ہیں اور ان کے نزدیک ایک پورا قبیلہ مورد الزام ٹھہرتا ہے؟ کیا انہیں اندازہ ہے کہ ایک وزیر اعظم کی جانب سے ا یک پورے قبیلے کے بارے میں یہ انداز تخاطب کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے؟ انہیں اپنی قومی ذمہ داریوں کا خیال کرنا چاہیے جو ان کے منصب سے جڑی ہیں۔پھر یہ بھی ہے کہ نسل پرست سیاست کی گنجائش نہ ملکی آئین دیتا ہے نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی قانون دیتا ہے۔یہ ایک وزیر اعظم کے منصب سے بہت کم درجے کی بات ہے۔ نیازی خاندان میں مسلم لیگ کے کارکن بھی ہوں گے۔ قومی رہنما کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت کے رہنما کے طور پر انہیں اس پہلو کا بھی خیال رکھنا چاہیے تھا، میں صرف اپنے قبیلے کی ترجمانی کررہا ہوں، عمران خان کے دور حکومت میں اس کی حکومت نے میرے میڈیا ہائوس کو بہت تکلیف دی ، اب یہ تکلیف عمران خان کی طرف سے سمجھوں ، شفقت جلیل یا فواد چوہدری کی طرف سے ، اس دور میں میرے میڈیا کے اشتہارات تقریباً نہ ہونے کے برابر رہے اور جو عزت و مقام و مرتبہ میرا مسلم لیگ کے دور میں تھا وہ انہوں نے ختم کرنے کی کوشش کی، مجھے آپ سے بھی توقع نہیں کہ میری مدد کریں گے ، وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ایک شریف اور عالی نصب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ، مگر وہ مجھ سے ملنے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں بھی یہ بیٹھی ہوئی ہے کہ جب وزیر اعظم نیازی کے نام سے ہی نفرت کرتا ہے تو پھر ایس کے نیازی سے کیوں ملا جائے ، تاہم وہ ایک دلیر ، بہادر اور ہمدرد خاتون ہیں، جناب وزیر اعظم جب 8مئی 2022کو سی پی این ای کے ایک وفد کے ہمراہ آپ سے ملاقات ہوئی ، جس میں میرے علاوہ رمیزہ مجید نظامی اور تیس کے لگ بھگ ایڈیٹر ز موجود تھے تو اس میں بھی میں نے آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ آپ عمران خان کو نیازی کہہ کر کیا باور کرانا چاہتے ہیں ، جبکہ وہ خود اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتا تو اس پر آپ نے کہا تھا کہ وہ ہمارا حریف نیازی ہے جبکہ آپ ہمارے دوست نیازی ہیں، مریم نواز آپ کی بھتیجی ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ ایک بیٹی نے کبھی ایسی گفتگو نہیں کی انہوں نے آپ سے زیادہ تکالیف اور صعوبتیں برداشت کیں،مگر ان کے اندر اللہ نے قوت برداشت بھی زیادہ رکھی ہے ، جبکہ آپ جوبڑے ہیں اور جنہیں زیادہ محتاط اور زیادہ ذمہ دار ہونا چاہیے تھا، وہ اس معاملے سے جڑی سنگینی اور سنجیدگی کو نہیں سمجھ رہے۔ ایک خیر خواہ کے طور پر میں ان سطور میں ایک بار پھر یہی گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ احساسات کے آبگینوں کا خیال رکھیے۔سیاست سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔ سیاست کسی کو کاٹ پھینکنے کا نام نہیں۔ سیاست جوڑنے کا نام ہے، توڑنے کا نام نہیں۔سیاست تہذیب کا نام ہے تحقیر کا نہیں۔