پاکستان کے خلاف سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں کو محض معمولی جھڑپیں سمجھنا سنگین غلط فہمی ہوگی۔ برسوں سے افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور کارروائیوں کا گڑھ رہی ہے۔ کبھی غفلت ،کبھی جان بوجھ کر نظراندازی، اور کبھی بیرونی سرپرستی کے نتیجے میں جاری رہیں۔ حالیہ واقعات میں سیکیورٹی ذرائع کے مطابق متعدد افغان پوسٹیں اور کیمپ نشانہ بنے، اور 27 پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا 29 زخمی ہوئے جبکہ 200سے زائد طالبان ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے یہ واقعات محض اتفاقیہ جھڑپیں نہیں بلکہ برسوں کی بداعتمادی کا نقط عروج ہیں۔پاکستان کی عسکری کارروائیاں اس بات کا اعلان ہیں کہ ریاست اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان امن، مذاکرات اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے، تاہم یہ یقین کسی کمزوری کا مظہر نہیں۔ بین الاقوامی قوانین بھی یہ حق دیتے ہیں کہ جب ریاست کی خودمختاری کو چیلنج کیا جائے تو وہ اپنے دفاع میں اقدامات اٹھائے۔آئی ایس پی آر کے مطابق کارروائی میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں، اسلحہ و گولہ بارود کو نشانہ بنایا گیا اور شہری آبادی کو نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن احتیاط برتی گئی۔ پاکستان کا بیانیہ دوٹوک ہے امن کی خواہش موجود ہے، لیکن دفاعی سرحدوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ سرحدی تنازعات کی جڑیں تاریخی اور پیچیدہ ہیں۔ 2017 میں سرحد پر باڑ لگانا اسی مقصد کے تحت تھا کہ غیرقانونی دراندازی کو روکا جا سکے۔ مگر باڑ کے باوجود سرحدی خلاف ورزیاں اور فائرنگ کے واقعات جاری رہے، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ صرف فزیکل رکاوٹیں مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان کو چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کرے۔پاکستان نہ صرف ان حملوں کا نشانہ ہے بلکہ افغان مہاجرین کا بوجھ بھی دہائیوں سے اٹھا رہا ہے۔ چار ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دے کر پاکستان نے انسانی ہمدردی کی اعلی مثال قائم کی، مگر اس میزبانی کے اعتراف میں پاکستان کو عالمی سطح پر وہ تعاون نہیں ملا جس کا وہ حق دار تھا۔افغان حکومت کا حالیہ جھکا بھارت کی طرف ایک تشویشناک پہلو ہے۔ اس وقت جب پاکستان بارہا افغان حکومت کے استحکام کیلئے معاون بنا، وہاں کے عبوری وزیر خارجہ کا بھارتی دورہ اور مشترکہ بیانات خطے میں نئی کشیدگی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان نے بجا طور پر اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔پاکستان کی قربانیاں محض اعدادوشمار نہیں،70 ہزار جانیں اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اس جنگ کے سچ کو ثابت کرتے ہیں۔ جب دشمن کی گولی سرحد پار سے آئے، تو خاموشی اختیار کرنا کسی ریاست کیلئے ممکن نہیں
رہتا۔ دفاعی ردعمل، محض عسکری کارروائی نہیں بلکہ ریاستی خودمختاری کا اظہار ہے۔خطے میں دیرپا امن کے لیے عالمی برادری، خصوصا سعودی عرب، قطر اور دیگر قابل اعتماد شراکت داروں کو آگے آنا ہوگا۔ ایک فعال ثالثی ہی فریقین کو مذاکرات کی میز پر لا سکتی ہے۔ پاکستان کی خواہش واضح ہے۔
ایک پرامن، مستحکم اور دوستانہ افغانستان۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔جہاں ہم افغانستان کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں، وہیں پاکستان کے اندرونی سیاسی استحکام بھی انتہائی اہم ہے۔ان حالات میں وفاق کو خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیاسی کشیدگی کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے۔داخلی ہم آہنگی ہی خارجی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔کشمیر، مغربی سرحد، اور دیگر تنازعات جب تک حل نہیں ہوتے، نہ صرف امن بلکہ ترقی بھی ایک خواب بنی رہے گی۔اس لیے یہ وقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل بیٹھ کر سنجیدہ، باہمی احترام پر مبنی اور قابل عمل مذاکرات کی راہ اپنائیں۔ ریاستِ پاکستان اپنی خودمختاری، دفاع اور قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی، اور نہ ہی اسے کمزوری سمجھا جائے۔ مگر حقیقی کامیابی وہی ہوگی جو جنگ سے نہیں بلکہ گفت و شنید، سفارتی حکمت عملی اور علاقائی مفاہمت سے حاصل ہو۔
پاک افغان مفاہمت کی ضرورت
