پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہ زرعی اجناس درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے پاکستان کے کل زمینی رقبے 79.6ملین ایکڑ میں سے زراعت کا حصہ 23.77 ملین ایکڑ ہے جہاں ہمہ گیر اقسام کی غذائی پیداواری صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے یہ کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے تاہم بد قسمتی سے 8 ملین ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے دنیا بھر میں جہاں مختلف نت نئے طریقے اپنا کر زمینوں کی پیداواری صلاحیت بڑھائی جارہی ہے وہیں ہمارے کاشت کار روایتی طریقوں پر ہی انحصار کرتے ہیں جس کے باعث فصلوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوپاتا اور فی ایکڑ پیداوار کم ہو رہی ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی سماجی واقتصادی ترقی کا دارومدار زراعت پر ہے ملکی شرح نمو میں زراعت کا حصہ تقریبا اکیس فیصد ہے اور پینتالیس فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہے زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے ملک میں پیدا ہونے والی کپاس’ گندم’ گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاصی اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ممالک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں کھاد نہ صرف مہنگی ہورہی ہے بلکہ کاشت کے دونوں میں ناپید ہوجاتی ہے دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہورہے ہیں حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں اشیا کو شدید مہنگا کردیا ہے غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے کو ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہورہی ہیں دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے کسان کو خوشحال رکھنے کے لئے باقاعدہ ادارے قائم ہیں جو کسانوں کو کھاد’ بیج’ زرعی ادویات زرعی آلات کی فراہمی میںدی جانے والی سبسڈی کی نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی حقیقی طور پر کسانوں تک پہنچے ان ممالک میں سبسڈی میں خورد برد کرنے والوں کے لئے کڑی سے کڑی سزائیں ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی سے بیورو کریسی جاگیر دار اور وڈیرا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ریلیف چھوٹے کسانوں کو ملتا ہے جس کی وجہ سے چھوٹا کسان دن بدن معاشی طور پر بدحالی کا شکار اور جاگیر داروں وڈیروں کے اثاثے بڑھتے جارہے ہیں غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں معاشی بدحالی کا شکاربہت سے افراد کا کھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں سبزی اور فروٹ منڈیوں میں آڑھتیوں کی حکمرانی ہے کسان کی حیثیت ایک گاہک سے زیادہ نہیں زرعی شعبہ جو خوراک کی پیدوار اور اہم برآمدی شعبے کے لئے خام مال مہیا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اگر اس کی کاگردگی میں بہتری آئی ہے تو اس میں حکومتی عمل دخل کے بجائے کاشت کاروں کی اپنی لگن اور معتدل موسموں کی صورت میں قدرت کی مہربانی کا زیادہ عمل دخل ہے جہاں تک حکومتی اقدامات کی بات ہے تو پنجاب میں تاحال حکومت گندم کی خریداری شروع نہیں کرسکی باردانہ ایپ بھی لا ہوگئی جبکہ حکومت پنجاب اور محکمہ خوراک خاموش ہیں اگلے پانچ روز میں طوفانی بارشوں کے امکان کے پیش نظر کسانوں کی پریشانی بڑھ گئے ہے کہ وہ کاشت کی گئی فصل کو کہاں سنبھالیں گے باردانہ ایپ پر یکم اپریل سے17اپریل تک درخواستیں وصول کی گئیں اس دوران 3لاکھ 94ہزار 239درخواستیں وصول ہوئیں اور اب ایپ لاک ہے وصول درخواستوں میں سے 2 لاکھ 75ہزار مسترد کردی گئیں جبکہ ایک لاکھ 19ہزار 237 درخواستیں منظور ہوئیں حکومت کی جانب سے رواں برس گندم خریداری کا ہدف نصف کرنے کا فیصلہ دہرے مسائل کا سبب بن سکتا ہے سرکاری سطح پر گندم کی کم خریداری کی وجہ سے مقامی ضروریات کے لئے مہنگے داموں گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے رواں سال بھی ہی ہوا اور نگران حکومت نے قریبا ایک ارب ڈالر گندم کی درآمد پر خرچ کردیئے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران 34 لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی 2022 میں بھی گندم کی درآمد پر ایک ارب 10 کروڑ ڈالر خرچ کئے گئے سوچنے کا مقام ہے کہ ان برسوں رواں برس کی نسبت دوگنا خریداری کے باوجود اگر ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑی تو اس سال جبکہ حکومت نے گندم خریداری کا ہدف رواں برس گزشتہ برس 78 لاکھ ٹن کے مقابلے میں40 لاکھ ٹن کردیا ہے گندم کے ممکنہ بحران کا ندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے حکومت ملک میں زرعی شعبے کی ترقی اور کسانوں کی خوشحالی کے لئے پر عزم ہے تو پھر اسے مڈل مین کا کردار ختم کرکے گندم کی تمام پیدوار کی سرکاری نرخوں پر خرید کو یقینی بنانے کےلئے فوری طور پر ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی چاہیے گندم کے خریداری ہداف میں بڑی کمی کے باوجود حکومتی مراکز پر گندم کی خریداری کا عمل ابھی تک شروع نہیں ہوسکا جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آڑ ھتی کاشت کاروں کا بے رحمانہ استحصال کر رہے ہیں گندم کی سمگلنگ کا مسئلہ بھی ہر سال سر اٹھاتا ہے اس مرتبہ سرکاری خریداری ہدف میں نمایاں کمی اور ڈیلروں کو کھلی چھوٹ ملک سے گندم کی سمگلنگ کے عمل کو مزید تیز کرے گی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو ملکی زراعت کے لئے تباہ کن ثابت ہوں اور کاشت کاروں کی حوصلہ شکنی کا سبب بنیں زرعی شعبے سے چشم پوشی کی پالیسی’ کسانوں کے بد ترین استحصال کے باوجود قومی زرعی پیداوار کی صورت حال بہتر ہے تو حکومت بر وقت اور موثر اقدامات سے اس میں مزید اضافے کے لئے اقدامات کو اپنی اولین ترجیح بنائے عالمی اقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے 2025تک پاکستان کو درپیش جن 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کر رکھی ہے ان میں خوراک کی کمی بھی شامل ہے ملک میں زرعی معیشت کو جدید بنیادوں پر ترقی دینے اور زمین سے زیادہ سے زیادہ پیدوار وار حاصل کرنے کےلئے کسانوں کی مالی اور تکنیکی معاونت بنیادی شرط ہے ارکان قومی اسمبلی کا یہ کہنا کہ ہم اربوں ڈالر یوکرین اور روس کے کسانوں کو تو دیتے ہیں لیکن چند ہزار اپنے کسانوں کو نہیں دے رہے بجا ہے بہتر یہی ہوگا کہ حکومت بیرون ملک سے ڈالروں میں گندم کی خریداری کرنے کے بجائے اپنے کاشتکار سے گندم کی خرید کو یقینی بنائے تاکہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور زرعی پیدوار میںخود کفالت کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے…
کسانوں کا استحصال اورحوصلہ شکنی کیوں؟
