دنیا بھر میں پسماندہ اور غریب ممالک کے مختلف شعبوں بالخصوص معاشی طور پر پیچھے رہنے کی بڑی وجہ سیاسی اتفاق رائے اور مضبوط سیاسی نظام کا فقدان ہے پاکستان کو بھی سیاسی ‘ سماجی معاشرتی اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کےلئے سیاسی استحکام اور اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے ہمارے جمہوری رویوں میں انانیت اور نااتفاقی کے نتیجے میں ملک کو بحران در بحران مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور ملک کے 25 کروڑ عوام بیچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ملک میں جمہوریت اور معیشت کو آگے بڑھا نے کےلئے ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ سے کام لینے زخموں کے اوپر مرہم رکھنے پاکستان کو مسائل ومشکلات اور بحرانوں سے نکالنے کےلئے انتشار’ افراتفری اور تصادم کی نہیں افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اس تناظر میں پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر عام انتخابات کے کامیاب انعقاد پر پوری پاکستانی قوم’ نگران ‘ الیکشن کمیشن’ سیاسی جماعتوں اور تمام جیتنے والے امیدواروں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہ کہنا کہ انتخابات اور جمہوریت پاکستان کے عوام کی خدمت کا ذریعہ ہیں’ قوم کو انتشار اور تقسیم کی سیاست سے آگے بڑھنے کےلئے مستحکم ہاتھوں اور ایک صحت بخش عمل کی ضرورت ہے’ تقسیم کی سیاست اور انتشار 25 کروڑ آبادی والے ترقی پسند ملک کےلئے موزوں نہیں ہے’ انتخابات جیتنے اور ہارنے کا مقابلہ نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا تعین کرنے کی مشق ہے موجودہ حالات میں پوری قوم کے دل کی آواز ہے نصف صدی سے پاکستان میں آئین کی بالادستی، جمہوریت اور عوام کی خیر خواہی کے جھوٹے سیاسی نعروں پر جملہ حکومتیں آئین کیساتھ جو منافقت کرتی چلی آرہی ہیں، اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج 75 سال بعد بھی بھرپور وسائل اور صلاحیتوں کی حامل مملکت اپنے قیام کی شاندار تاریخ کے باوجود بڑے سیاسی واقتصادی بحران کا شکار ہے ملک کو پورا سیاسی وسماجی ڈھانچہ جملہ مہلک امراض میں مبتلا ہے اور اس کی بنیادیں بھی ہلنے لگی ہیں سیاسی قائدین نصف صدی سے زائد کا عرصہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے’ الزام ترشیاں کرنے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں گزار چکے ہیں حالانکہ اگر سیاسی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کرتیں یہ عرصہ قوم کو جمہوری روایت سے آشنا کرانے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کو مضبوط بنانے ملک وقوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے کچھ کم نہیں تھا مگر افسوس کہ سیاسی قائدین نے اقتدار کی کھینچا تانی میں عوام میں وہ سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جو ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کرنے کے لئے ضروری تھا نظام کسی ایک فرد یا شخصیات سے نہیں بلکہ اداروں’ جمہوری سوچ اور جمہوری رویے سے مستحکم ہوتا ہے اپنی ذات اور نظام کو لازم و ملزوم قرار دینا فوجی آمروں کا وطیرہ ہوتا ہے جن کے اقتدار کی کوئی آئینی اور عوامی بنیاد نہیں ہوتی اگر جمہوری نظام کو بھی جرنیلی آمریت کی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی جائے تو پھر نظام کے استحکام تصور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کی جانب سے سیاست میں معقولیت’ تحمل اور شائستگی کی روایات کو مستحکم کرنے کے بجائے اشتعال ور نفرت کو فروغ دینے کا نتیجہ آج پوری قوم کے سامنے ہے ملک وقت جن مشکلات اور بحرانوں سے دوچار ہے اس کی بنیادی اور بڑی وجہ بھی سیاسی قائدین کااپنی ذات اور نظام کو لازم وملزوم قرار دینا ہے ہماری سیاست قیادت نے اقتدار کےلئے محلاتی سازشوں پر زور دینے کے بجائے اپنی توجہ ملک وقوم کو درپیش مسائل کے حل اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے پر مبذول کی ہوتی تو آج ہمیں ان حالات سے دوچار نہ ہونا پڑتا جس کی وجہ سے ہماری سلامتی اور بقا سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ارض پاک اس وقت اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہے دشمن بڑے اور دیرپا مذموم نتائج حاصل کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک بے تحاشا مسائل کا شکار ہے اور عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی صورت میں سیاسی انتشار میں مزید اضافے کا خدشہ موجود ہے اس تناظر میں عام انتخابات کا انعقاد ایک ایسا سنگ میل ہے جسے عبور کرنے کرنے کے بعد تمام سیاسی قائدین پر یہ مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اپنی اناﺅں کے خول سے باہر نکل کر ملک وقوم کو درپیش مشکلات’ مسائل اور بحرانوں سے باہر نکالنے کےلئے مل بیٹھ کرٹھوس حکمت عملی وضع اور جمہوری روایات کو مستحکم کرنے کی موثر کوششیں کریں بیان بازی کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کے نتیجے میں بحران اور اندرونی وبیرونی خطرات بڑھ سکتے ہیں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی ملک کو درپیش مسائل میں سر فہرست ہیں جبکہ دیگر بہت سے اہم مسائل بھی انہیں دو بڑے مسائل سے جڑے ہوئے ہیں – انتخاب ہوچکے’ عوام اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں اب اگلا مرحلہ حکومت سازی کا ہے وفاق اور صوبوں میں کون کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گا’ یہ سوال اب سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے قومی صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشنز واضح ہونے پر حکومت سازی کےلئے رابطے اور کوششیں تیز ہوچکی ہیں صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت کا ہدف عوام کو مہنگائی اور مسائل سے نجات دلانا ہوگا تمام سیاسی قوتوں کو پاکستان کےلئے ایک ہونا ہوگا چیئرپیپلز پارٹی بلا ول بھٹو نے کہا ہے کہ ملک کے مفاد میں ہے کہ سیاسی طور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں کریں ‘جو ہونا تھا وہ ہوچکا’ سیاسی عدم استحکام کو ایڈریس کئے بغیر بننے والی حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے میں مشکلات ہوں گی میں چاہوں گا کہ پیپلز پارٹی مل کر اتفاق رائے سے ایسی حکومت بنائے جس سے سیاسی استحکام ہو’ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ وفاق’ پنجاب’ پختونخواہ میں حکومت بنائیں گے’ شمولیت کا جلد فیصلہ کریں گے سب سے درخواست ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کریں بلا شبہ ملک کو درپیش تمام بڑے بڑے مسائل کی اصل وجہ سیاسی عدم استحکام ہی ہے اور پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر ‘ چیئرمین پیپلز پارٹی بلا ول بھٹو زرداری و دیگر سیاسی رہنمائ’ تجزیہ نگار بھی مسلسل اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کو اس کی حساسیت کا درست ادراک نہیں اور وہ آج بھی اتفاق رائے کی کوششوں سے زیادہ اپنے اپنے سیاسی مفادات کو اولیت دینے میں لگی ہوئی ہیں حالانکہ سیاست سے زیادہ اس وقت ملک کی معاشی ترقی کا تحفظ انتہائی ضروری ہے ملک کو آگے لے جانے’اندرونی وبیرونی سازشوں کو ناکام بنانے کےلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت انتخابات کے نتائج کو دل وجاں سے تسلیم کرے تاکہ اگلے پانچ سال ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور محلاتی سازشیں کرنے میں نہ گزریں عوام نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے جن نمائندوں کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے دیگر سیاسی جماعتوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے -دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوری نظام رائج ہے’عوامی مینڈیٹ کا احترام ان معاشروں کا خاصا ہے ہمیں بھی موجودہ سیاسی صورتحال کو زیادہ طول دے کر انا کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی قائدین جارحانہ طرز عمل کو خیر باد کہہ کر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کریں اسی میں ملک و قوم کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کی بھلائی بھی ہے ملک کو اندرونی وبیرونی طور پر جن چیلنجز کا سامنا ہے اس سے نبرد آزما ہونا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کےلئے تمام جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بہترین آپشن ہے اگر اس پر عمل درآمد کی کوئی صورت نکلتی ہے تو یہ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہے ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کا تمام تر انحصار اب جمہوریت کے ساتھ وابستہ سیاست دانوں پر ہے ناعاقبت اندیشن پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونےوالے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورت حال کو دور کرنے کےلئے نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ قدم بقدم ملا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اسی صورت میں ملک میں سیاسی عدم استحکام آئے گا اور مسائل حل ہوں گے۔
قومی حکومت کا قیام بہترین آپشن
