اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو انتہائی مہارت اور حسنِ تدبیر سے تخلیق فرمایا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہیں، نیکیوں کی دوڑ میں آگے نکل رہے ہیں، ہر نعمت پر شکر بجا لا رہے ہیں، اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر ہر ایک کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب اور اس کے رسول ۖ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں، ہر عمل میں رضائے الہی کو مدنظر رکھتے ہیں، اور زندگی کے ہر پہلو سے حقیقی لطف اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ نیک لوگ ہیں جو دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، انہیں صرف اپنی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی فکر ہوتی ہے۔ لیکن افسوس! ہمارے معاشرے میں کچھ "نام نہاد مسلمان” بھی موجود ہیں جو اپنی انا اور مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ انہیں انسانیت کا تصور تک نہیں، یہاں تک کہ یہ لفظ بھی ان کے لیے اجنبی ہے۔ جب کسی بے بس انسان کی زندگی کی ڈور ایسے بے حس لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتی ہے تو وہ اسے تڑپاتے رہتے ہیں۔ حلال رشتوں کو بھی وہ صرف "فائدے” کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ جو شخص مجبوریوں کا شکار ہو کر ان کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، اس کا ہر لمحہ جہنم بنا دیا جاتا ہے۔ اس پر مسلسل احساسِ کمتری مسلط کیا جاتا ہے، اس کے جائز حقوق بھی "شرائط و ضوابط” کے نام پر مشروط کر دیے جاتے ہیں۔ وہ بے چارہ اپنا رشتہ بچانے کی خاطر ان تمام ناانصافیوں کو سہہ لیتا ہے، لیکن یہ بے حس لوگ کہاں رکتے ہیں؟ آج ایک لہجہ، تو کل کوئی اور انداز، ان کی زبانیں ہر روز نیا روپ دھار لیتی ہیں۔ کسی کی بے بسی پر پہاڑ جیسا بوجھ ڈال کر اسے کچل دیا جاتا ہے۔
ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم موت کو بھول چکے ہیں۔ مفاد کی ہوس میں ہم نے انسانیت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جب کسی کی زندگی کا اختیار ہمارے ہاتھ آتا ہے تو ہم اس سے بے دریغ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حقدار کو اس کے حق سے محروم رکھنے کے لیے روز نئے "شکنجے” ایجاد کیے جاتے ہیں۔ وہ بے چارہ مجبور شخص ان کے ناانصاف رویوں اور غیرمنطقی مطالبات کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکل آتا ہے کہ وہ بے بس انسان مالی تباہی کے ساتھ ساتھ ذہنی تنا، اعصابی بیماریاں، اور پھر وہ لمحہ جب وہ چیخ چیخ کر اپنا آپ نوچنے لگتا ہے۔ اس کی آہیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں، کیونکہ جو شخص اس کا واحد سہارا ہونا چاہیے، وہ تو پہلے ہی "دنیاوی خوابوں” کی دوڑ میں اتنے آگے نکل چکا ہوتا ہے کہ اپنے ہی رشتوں کو بھول بیٹھتا ہے۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ نتیجتا، ہمارے معاشرے کے حساس نوجوان زندگی سے بیزار ہو کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ یہ "خودکشی” نہیں، بلکہ درحقیقت یہ ایک اجتماعی قتل ہے، جس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ لیکن ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ "نفسی نفسی” کے اس دور میں نبی آخر الزماں ۖ کی امت کس لالچ میں مبتلا ہو گئی؟ ہم اپنی دنیا میں آنے کا اصل مقصد بھول چکے ہیں۔ یاد رکھیے! یہ دنیا عارضی ہے، رشتوں کو جکڑ کر نہیں، بلکہ انہیں سہارا دے کر آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔
میری تمام معاشرتی بھائیوں اور بہنوں سے گزارش ہے کہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے "رشتوں کے جال” میں صلح کی کوشش کریں۔ انہیں بگاڑنے کی بجائے سنوارنے کی کوشش کریں۔ رشتہِ ازواج کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ "خودغرضی” ہے۔ فرعونیت کے خلاف آواز اٹھائیں، غیرمناسب رسوم و رواج کا خاتمہ کریں۔ ایک متحدہ قوت بن کر نوجوان نسل کی زندگیوں کو آسان بنائیں۔ کیونکہ ہماری خاموشی بھی ایک جرم ہے۔
تحریر: ناصر اقبال کریمی