خاص خبریں

توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی، چیف جسٹس

توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی، چیف جسٹس

اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت کے بینچ پر اعتراض کے بعد کیس سننے والا سات رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔آج کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے زبانی ریمارکس دیے کہ توقع کرتے ہیں جب تک سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔قبل ازیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کا جیسے ہی آغاز کیا تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور بولے جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا تھا کہ مجھ پر اعتراض تو نہیں، میں نے کہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں لیکن مجھے وفاقی حکومت کی طرف سے ہدایت ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی عزیز اس مقدمہ میں درخواست گزار ہے، وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ یہ مقدمہ نہ سنے۔دوران سماعت، جسٹس منصور علی شاہ نے ریماکس دیے کہ میں نے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں، اب بینچ پر اعتراض کس کی طرف سے اٹھایا گیا ہے۔ کوڈ آف کنڈیکٹ کا آرٹیکل 4 بڑا واضع ہے، کیا اعتراض ہے کھل کر بتائیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں بینچ سے خود کو الگ کرتا ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمہ داری ہے اور ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں البتہ بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن انکی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے۔ لوگ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، بینچ میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ جج صاحب خود کریں گے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال سے اعتراض کے بعد میں میرا اس بینچ میں شامل رہنا نہیں بنتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟ اگر ایسے الزامات حکومت لگائے گی تو کیا ہوگا، عدالت کو بدنام مت کریں، آپ بینچ کے ایک جج پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں کبھی اس بینچ میں نہیں بیٹھا جب مجھ پر جانبداری کا شبہ بھی ہو۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جج صاحب پر جانبداری کا کہہ رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراو کا؟ آپ کس بنیاد پر اعتراض کر رہے ہیں، آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ اچھے کردار اور اقدار کے حامل وکیل ہیں، ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ان کا درخواست گزار جواد ایس خواجہ سے قریبی تعلق ہے اس لیے جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں بیٹھنے پر نظرثانی کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے