جنوبی ایشیا میں ایٹمی کشیدگی ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت، دونوں ایٹمی طاقتیں، ایک دوسرے کے ساتھ سخت جغرافیائی اور سیاسی تنازعات کا شکار ہیں۔ حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے ایٹمی صلاحیتوں میں توسیع، غیر ذمہ دارانہ بیانات، اور جنگی جنون نے خطے کو خطرناک حد تک غیر مستحکم کر دیا ہے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے، جس کا مقصد صرف بھارت کی طرف سے ممکنہ حملے کا مؤثر جواب دینا ہے۔ پاکستان کی حکمتِ عملی "کم از کم قابلِ اعتبار دفاع” (Minimum Credible Deterrence) پر مبنی ہے، جس کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال روکنا ہے، نہ کہ جنگ کو ہوا دینا۔
اس کے برعکس بھارت نے جارحانہ حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔ اگرچہ بھارت "نو فرسٹ یوز” (No First Use) کی پالیسی کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس کے رہنماؤں کے حالیہ بیانات اور بین البراعظمی میزائل پروگرام جیسے اگنی-V اور اگنی-VI اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ ان میزائلوں کی رینج 8,000 سے 12,000 کلومیٹر تک ہے، جو صرف خطے تک محدود نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بھارت کی کئی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی سے باہر ہیں، جو شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
2025 کا بحران: ایٹمی تباہی کے دہانے پر
اپریل 2025 میں پہلگام میں دہشت گرد حملے کے بعد بھارت نے 7 سے 10 مئی تک "آپریشن سندور” کے تحت پاکستان اور آزاد کشمیر میں کئی اہداف پر حملے کیے، جن میں براہموس اور SCALP جیسے میزائل شامل تھے۔ ان میں سے بعض میزائل ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں، جس سے صورتحال بے حد نازک ہو گئی۔ ماہرین کے مطابق یہ جنوبی ایشیا میں اب تک کی سب سے خطرناک فوجی جھڑپ تھی، جو ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی تھی۔
جواباً، پاکستان نے 10 مئی کو "آپریشن بنیان المرسوس” کے ذریعے بھارت کے 26 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، لیکن ایٹمی دھمکیوں سے گریز کیا۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی دنیا کو صورتحال سے آگاہ رکھا، جبکہ بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی اور غیر پیشہ ورانہ رویہ دیکھنے میں آیا۔
بھارتی ایٹمی سلامتی پر سوالات
یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے ایٹمی معاملات میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہو۔ 2022 میں بھارت نے غلطی سے ایک براہموس میزائل پاکستان میں داغ دیا، جبکہ 2021 میں بھارتی پولیس نے چوری شدہ یورینیم بیچنے کی کوشش کرنے والے افراد کو گرفتار کیا۔ ان واقعات نے بھارت کی ایٹمی سلامتی اور نظم و ضبط پر سوالیہ نشان لگا دیے۔
ذمہ دارانہ طرز عمل کی ضرورت
پاکستان نے بحرانوں میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنے ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو عالمی معیارات کے مطابق ڈھالا ہے بلکہ IAEA کے تحت اپنے شہری نیوکلیئر پلانٹس کو رضاکارانہ طور پر رکھا ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے: ایٹمی ہتھیار صرف دفاع کے لیے ہیں، نہ کہ دھمکیوں یا سیاست کے لیے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ اسے چاہیے کہ:
-
تمام نیوکلیئر تنصیبات IAEA کی نگرانی میں دے؛
-
’نو فرسٹ یوز‘ پالیسی کی دوبارہ توثیق کرے؛
-
پاکستان کے ساتھ بحرانی رابطہ نظام (Hotlines) اور پیشگی خبردار کرنے والے نظام پر اتفاق کرے؛
-
ایٹمی ہتھیاروں کو روایتی جنگی کارروائیوں سے الگ رکھے؛
-
اور فِسائل میٹریل کٹ آف ٹریٹی (FMCT) جیسے معاہدوں میں شرکت کرے۔
بین الاقوامی برادری، بالخصوص امریکہ، کو بھی چاہیے کہ وہ خطے میں مستقل سفارتی عمل کے ذریعے ایٹمی استحکام کو یقینی بنائے۔
اختتامی کلمات
جنوبی ایشیا ایٹمی تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معمولی غلطی بھی تباہ کن نتائج لا سکتی ہے۔ پاکستان نے اپنی سنجیدگی اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے، اب بھارت پر ہے کہ وہ خطے اور دنیا کے امن کی خاطر اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔