صحت

بدلتے بیکٹیریا کے لیے خود کو بدلنے والی اینٹی بایوٹکس تیار

2050 تک ذیا بیطس کے مریضوں کی تعداد 130 کروڑ سے تجاوز کر جائیگی

نیویارک: دنیا بھر میں امراض کے سامنے اینٹی بایوٹکس خود کو بدل کر ادویہ کو بےاثر کر رہی ہیں۔ اب نئی اقسام کی اینٹی بایوٹکس سے اس گھمبیر مسئلے کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے جسے ہم ’ اینٹی بایوٹک مزاحمت (ریسسٹنس) کہتے ہیں۔عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق دنیا بھر میں دسیوں لاکھوں افراد اینٹی بایوٹکس کی ناکارگی سے مر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے عالمی صحت کو درپیش 10 بڑے خطرات میں شامل کیا گیا ہے۔وجہ یہ ہے کہ بیکٹیریا، وائرس اور جراثیم پر جب ایک ہی قسم کی اینٹی بایوٹک دوا استعمال کی جائے تو جراثیم خود کو بدل لیتے ہیں اور یوں دوائیں بے اثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔اب کولڈ اسپرنگ ہاربر لیبارٹری (سی ایس ایچ ایل) کے پروفیسر جان موسیس اور ان کے ساتھیوں نے 2022 میں نوبیل انعام جیتنے والی ’کِلک کیمسٹری‘ کی بدولت ایک نئی اینٹی بایوٹک بنائی ہے۔ جس کےایٹم بدلتےتناظر میں مسلسل خود کو بدلتے رہتےہیں۔پروفیسر جان نے ایک سال قبل دریافت شدہ ’بل ویلین‘ نامی سالمے (مالیکیول) کو دیکھا جس کےایٹم اپنی پوزیشن بدل سکتے ہیں۔’بل ویلین‘ لاکھوں ممکنہ اشکال میں ڈھل سکتا ہے۔ اب ڈاکٹر جان نے اس میں وینکومائسن نامی اینٹی بایوٹکس کو شامل کیا۔ اور اس طرح ایک نئی اینٹی بایوٹکس سامنے آئی اور اسے ویکس نامی بھِڑ (موتھ) کے کیڑے (لاروا) پرآزمایا جو ایک مروجہ طریقہ بھی ہے۔اس دوا کو کئی بار استعمال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ بیکٹیریا نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں دکھائی اور اس طرح کلک کیمسٹری کی افادیت سامنے آئی ہے۔ ماہرین نے اسے ایک شاندار پیشرفت قرار دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے