پاکستان

مایوسی اور بے بسی کی نیند سوئے غریبوں کے خواب اکثر”سچ”ہو جایا کرتے ہیں!

مایوسی اور بے بسی کی نیند سوئے غریبوں کے خواب اکثر''سچ''ہو جایا کرتے ہیں!

خصوصی رپورٹ
یہ ایک عام فہم بات ہے کہ جو لوگ کچی بستیوں یا پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں، ان کی قسمت بھی ان کے ماحول کی طرح تاریک ہوتی ہے، غربت، بے بسی، بے روزگاری اور سہولیات کی عدم دستیابی نے ان کی زندگیوں کو ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد میں تبدیل کر دیا ہوتا ہے، وہ خواب تو دیکھتے ہیں، لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جو اعتماد، وسائل اور سہارا درکار ہوتا ہے، وہ انہیں میسر نہیں آتا۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کچی بستیوں کے باسی "زندگی گزارنے” کی دوڑ میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ "زندگی جینے” کا تصور ہی بھول جاتے ہیں، اجتماعیت، فیصلے سازی، اور اپنے مسائل کا اجتماعی حل جیسے تصورات ان کے لیے کسی اور دنیا کی باتیں محسوس ہوتے ہیں۔
مگر کراچی کے ضلع شرقی میں واقع ویلفیئر کالونی نے ان روایتی تصورات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اگر محروم لوگ منظم ہو جائیں، تو وہ اپنے حالات خود بدل سکتے ہیں۔ یہ علاقہ مشہورِ زمانہ پرانی سبزی منڈی اور حسن اسکوائر کے وسط میں واقع ہے، یہاں کے لوگوں کا زریعہ معاش محنت مزدوری ہے ،ماضی کی تکلیفوں کو بھلاتے ہوئے یلفیئر کالونی کے باہمت علاقہ مکین اپنے اچھے مستقبل کے لیے پر امید ہیں، انہیں یقین ہے کہ رات کے تاریک اندھیرے ، صبح کے پرنور اجالوں کی تاب نہ لاسکیں گے، انہیں یقین ہے کہ وقت بدلے گا اور انکے علاقے میں قائم کیا جانے والا "سوشل موبلائزیشن نیٹ ورک” اس بات کا ثبوت بن جائے گا کہ باہمی اعتماد، رابطہ کاری اور شعور کی بیداری پسماندگی کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار بن سکتے ہیں۔
یہ نیٹ ورک ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پراجیکٹ (کیڈبلیو ایس ایس آئی پی) نے نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آرایس پی) کے اشتراک سے نہ صرف ویلفیئر کالونی بلکہ کراچی کی دیگر پسماندہ آبادیوں (جن میں عیسی نگری ، صوبہ نگر اور گوہر آباد شامل ہیں ) میں قائم کیا ہے۔ پانی ، صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت (واش) کے ضمن میں بنایا گیا یہ پلیٹ فارم لوگوں کو سماجی طور پر متحرک رکھنے کے لیے پوری آب و تاب سے مصروفِ عمل ہے اور کامیابی کی کہانیوں کو جنم دے رہا ہے ۔اس نیٹ ورک کی سب سے خاص بات پسماندہ بستیوں میں بنائی جانے والی واش کمیٹیاں اور کمیونٹی بیسڈآرگنائزیشن (سی بی او)ہیں ۔
ایک فرد کی اذیت، ایک پوری بستی کی آنکھ کھولنے والی کہانی:
گلزار قریشی، ویلفیئر کالونی کے ایک سادہ، تنہا زندگی گزارنے والے بزرگ تھے، ان کی زندگی روزمرہ کے مسائل اور محرومیوں کا آئینہ تھی۔ وہ کم گو، گوشہ نشین، اور اکثر خود تک محدود رہتے تھے۔ بظاہر وہ ایک خاموش کردار تھے، لیکن اندر سے وہ بھی اپنی زندگی میں سکون اور بہتری کی خواہش رکھتے تھے بس حالات نے انہیں خاموش کر دیا تھا۔
تنہائی صرف جسمانی کیفیت نہیں، بلکہ ایک ذہنی اور جذباتی قید بھی ہوتی ہے، جب کوئی شخص خود کو اپنے مسائل میں تنہا پاتا ہے، تو وہ آہستہ آہستہ دنیا سے کٹنے لگتا ہے، اپنی آواز کھو دیتا ہے، اور پھر وہ دکھ اس کی شناخت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ایک شام، وہ علاقے کے چائے والے کے پاس اپنے چند پرانے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے، علاقے کی گندگی، بند نالے اور سیوریج کا پانی معمول بن چکے تھے، ان ہی حالات کے سبب، کسی کیڑے نے ان کے پاں پر کاٹ لیا تھا ، ابتدا میں اس زخم کو وہ معمولی سمجھ کر نظرانداز کر گئے، مگر کچھ ہی دنوں میں زخم نے خطرناک صورت اختیار کر لی ۔ ۔ ۔ پاں کی سوجن بڑھنے لگی، درد ناقابل برداشت ہوتا گیا، اور وہ بستر سے لگ گئے۔
جب معاشرے میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہو، تو ایک معمولی زخم بھی موت کے دہانے تک لے جا سکتا ہے، گندے پانی اور صفائی کی کمی نہ صرف بیماریاں پھیلاتی ہے، بلکہ محروم لوگوں کو مزید کمزور اور بیبس بنا دیتی ہے۔
گلزار قریشی نہ چلنے کے قابل رہے، نہ سونے کے، اور نہ ہی کسی سے مدد مانگنے کے، ہسپتال جانے سے بھی ہچکچا رہے تھے کیونکہ ڈاکٹروں نے پاں کاٹنے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا، اس بات نے انہیں مزید ذہنی دبا میں ڈال دیا۔
پھر روشنی کی ایک کرن نے ان کی زندگی بدل دی:
یہ وہ موقع تھا جب ویلفیئر کالونی میں بنے سوشل موبلائزیشن نیٹ ورک نے اپنی موجودگی کا بھرپور ثبوت دیا۔ اس نیٹ ورک میں شامل واش کمیٹیوں اور سی بی او کے اراکین نے گلزار قریشی کی حالت دیکھ کر فورا ایک ہنگامی میٹنگ بلائی۔
حقیقی سماجی تبدیلی تب آتی ہے جب لوگ ایک دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھنا شروع کر دیں۔ جب ہم فرد کی تکلیف کو کمیونٹی کا مسئلہ مان لیں، تب ہی ہم ایک باوقار معاشرہ بن سکتے ہیں۔
اس میٹنگ میں گلزار قریشی کے علاج کے لیے تفصیلی منصوبہ تیار کیا گیا۔ اگلے دن انہیں قریبی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کا مکمل معائنہ، ٹیسٹ اور پھر فوری آپریشن کیا گیا۔ ہسپتال میں قیام کے دوران نہ صرف تمام اخراجات سوشل موبلائزیشن نیٹ ورک نے اٹھائے، بلکہ ان کی تیمارداری کے لیے رضاکارانہ بنیاد پر ذمے داریاں بھی تقسیم کی گئیں۔
نیٹ ورک کی منظم خدمات ایک عمدہ مثال :
مالی معاونت :ہسپتال کے تمام اخراجات نیٹ ورک نے اٹھائے، جس کے لیے مختلف کمیونٹی ارکان نے چندہ اکٹھا کیا، وسائل فراہم کیے، اور جمع شدہ رقم کے شفاف استعمال یقینی بنایا۔
جذباتی سپورٹ:گلزار قریشی کو تنہائی کا احساس نہ ہو، اس کے لیے روزانہ محلے دار ہسپتال جا کر ان کے ساتھ وقت گزارتے۔
تنظیمی نظم و ضبط :ہر کام کو ایک شیڈول کے تحت چلایا گیا، تاکہ کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہ ہٹے۔
یہ نیٹ ورک محض لوگوں کا ہجوم نہیں بلکہ ایک منظم، متحرک، اور ذمہ دار سسٹم ہے، جس نے ثابت کیا کہ اگر قیادت کمیونٹی سے ہو، تو محرومی کو طاقت میں بدلا جا سکتا ہے۔
زندگی کا نیا آغاز:
چند ہفتوں بعد، گلزار قریشی صحتیاب ہو کر گھر واپس لوٹے صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ جذباتی اور سماجی طور پر بھی۔ وہ اب تنہا نہیں تھے، بلکہ کمیونٹی نیٹ ورک کا اہم رکن بن چکے تھے، وہ باقاعدگی سیمیٹنگز میں شرکت کرتے ہیں، علاقے میں صفائی مہم کا حصہ بنتے ہیں، بچوں کو حوصلہ دیتے ہیں اور دوسرے بزرگوں کو بھی کمیونٹی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔
ویلفیئر کالونی ایک جیتی جاگتی مثال:
آج ویلفیئر کالونی محض ایک کچی آبادی نہیں، بلکہ اجتماعی سوچ، منظم عمل، اور انسانی ہمدردی کی ایک روشن مثال ہے، یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہیں، فیصلے اجتماعی ہوتے ہیں، اور ہر فرد خود کو کمیونٹی کی طاقت کا حصہ محسوس کرتا ہے۔
اگر ایک بستی کے محروم ترین فرد کو دوبارہ زندگی دی جا سکتی ہے، تو پوری بستی کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ لوگ جڑیں، سنیں، سوچیں سمجھیں ، اور مل کر چلیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے