کالم

اعضاءکی پےوند کاری کا دھندا

اےک خبر پڑھنے پر روح مےں اےک جھکڑپےدا ہوا جو مسلسل چل رہا ہے ۔ےوں محسوس ہوا کہ مےں اےک جنگل مےں کھڑا ہوں جہاں قانون نام کی کوئی چےز نہےں ۔ہر سو خوف و ہراس نے ڈےرے ڈالے ہوئے ہےں ۔ہر قسم کی بڑھتی ہوئی جرائم کی تعداد نے عوام کا سکون اور چےن تباہ کر کے رکھ دےا ہے ۔کوئی دن اےسا نہےں گزرتا جس روز کسی نہ کسی شہر ،قصبے ےا گاﺅں کی سطح پر ڈکےتی ،رہزنی ،زنا بالجبر ،اغوا برائے تاوان کے لرزہ خےز واقعات نہ ہوتے ہوں ۔دوسری طرف دہشت گردی کا طوےل سلسلہ ہے جو ہنوز رکنے مےں نہےں آ رہا ۔ملک خداداد کا ہر فرد عدم تحفظ کا شکار ہے ۔ماضی کے پر امن دور مےں جرائم کی خبرےں حال حال اور اہم شمار ہوتی تھےں لےکن آج کسی جگہ کسی جرم ےا کسی المناک سانحہ کا وقوع پذےر نہ ہونا اےک اہم خبر شمار ہو گی کےونکہ آج کوئی دن بھی کسی بھی مقام پر جرائم سے تہی نہےں گزرتا ۔ہاں تو کالم کے آغاز مےں اےک خبر کا ذکر کےا تھا ۔خبر تھی کہ پنجاب مےں ہےومن آرگن ٹرانسپلانٹےشن اتھارٹی (ہوٹا) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود انسانی اعضاءکی غےر قانونی پےوند کاری کا دھندا جاری ہے ۔خبر کے مطابق اس دھندے مےں ملوث افراد غرےب لوگوں کو ملازمت کا جھانسہ دے کر دوسرے شہروں مےں لے جاتے ہےں جہاں ان کے گردے نکال لےتے ہےں ۔گزشتہ ماہ لاہور سے اےک 14سالہ بچے کو نوکری کا جھانسہ دے کر راولپنڈی بلاےا گےا جہاں اس کا گردہ نکال کر واپس چھوڑ دےا گےا ۔متاثرہ بچے کے والدےن کی درخواست پر کاروائی کرتے ہوئے پولےس نے گردہ چور گےنگ کے چھ افراد کو حراست مےں لے لےا ۔وطن عزےز مےں انسانی اعضاءکی پےوند کاری کا دھندا خوفناک صورت اختےار کر چکا ہے اور اکثر غرےب لوگ اس چنگل مےں پھنس جاتے ہےں ، کہا جاتا ہے کہ آزاد کشمےر مےں بھی غےر قانونی پےوند کاری کے کئی کلےنکس موجود ہےں ۔وہاں ( ہوٹا) کا قانون لاگو نہےں ہوتا ۔اس لئے وہاں غےر قانونی پےوند کاری کا جرم بے دھڑک جاری ہے ۔ماضی مےں بھی لاہور پولےس نے اےک گروہ پکڑا تھا جو انسانی گردوں کے غےر قانونی کاروبار مےں ملوث تھا ۔اس گروہ نے الفےصل ٹاﺅن امےرالدےن پارک کی بورےوالی گلی مےں اےک گھر کرائے پر لے رکھا تھا ۔ےہاں غربت مےں اسےر نوجوانوں کو لاےا جاتا جہاں چند ہزار کے عوض ان کا گردہ خرےد لےا جاتا ۔اس دھندے مےں ملوث غےر ملکی پےشہ ور گروہ گردہ کو لاکھوں روپے مےں بےچ دےتے ۔
معزز قارئےن افلاس سماج کا سب سے بڑا ناسور ہے ،کبھی تو انسان اپنی پےاری اولاد کے بےچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور سر بازار اپنے معصوم بچوں کی گردنوں مےں برائے فروخت کی تختےاں لگا کر اپنی بے بسی کو اجاگر کر رہا ہوتا ہے ۔جب آنگن مےں بھوک ناچنے لگے ،فاقوں کی صورتحال پےدا ہو جائے ،جسم مزدوری کی صعوبت اٹھانے کے قابل نہ رہے تو پھر اپنے لخت جگر منڈی مےں لے آنا اس خےال کے ساتھ کہ چلو کوئی صاحب حےثےت انہےں خرےد لے گا تو کم از کم انہےں کھانے کو تو کچھ دے گا ۔بےدل حےدری نے 40برس قبل اسی خدشے کا اظہار کےا تھا۔
بھوک نے جان پر بنا دی ہے
لوگ بچے نہ بےچنے لگ جائےں
بےدل حےدری کا وہ خدشہ آج حقےقت کا روپ دھار چکا ہے ۔کبھی حضرت ےوسف بھی بازار مےں بکے تھے ۔آج کے ترقی ےافتہ دور مےں بازار مصر سجا ہے ۔ان گنت بے سہارا ،تنگ دستی کے جہنم کا اےندھن بنے ،مفلوک الحال انسان مجبور ہو جاتے ہےں ،ہر اس چےز کو بےچنے پر جو ان کی دسترس مےں ہوتی ہے ،جو بک سکتی ہے ۔کسی کے جسم مےں گردہ ہے تو وہ بازار مےں لے آئےگا ،رگوں مےں دوڑتے لہو کا اگر کوئی خرےدار ہے تو وہ اسے پےش کرنے مےں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہےں کرے گا ۔جس مال کی منڈی مےں طلب ہو گی ،مفلس کی مجبوری اور ضرورت اسے وہاں لے آئے گی ۔بات شروع کی تھی گردہ مافےا کی گرفتاری کی ۔گردہ فروشی کا ناجائز کاروبار کرنے والے گروہ کے ارکان جو ڈاکٹر ہےں اور پےوند کاری کر رہے ہےں ،وہ کےسی مسےحائی کر رہے ہےں ۔ڈاکٹری تو پےشہ ہے دکھ درد دور کرنے کا ،مسےحا تو زخموں پر مرہم رکھتے ہےں ،حوصلہ دےتے ہےں ،حوصلہ شکن نہےں بنتے ۔ےہ کےسے مسےحا ہےں جو غرےبوں اور کمزوروں کو زندہ و درگور کر کے ےہ انسانےت کے چارہ ساز مسےحا اس انتہا کو کےوں پہنچ گئے ۔مسکراہٹےں بانٹنے والے کرب مےں تو مبتلا نہےں کرتے ۔ہمارے ہاں ڈاکٹری کا پےشہ اگر اےک طرف مسےحائی ہے تو دوسری طرف پےسہ بنانے کی مشےن بھی ہے ۔پےشہ کو تجارت سمجھنے والوں کے ساتھ ساتھ مار دھاڑ کرنے والے ،دونوں ہاتھوں سے انسانی کھال کھےنچنے والے ےہ ہنر مند دنوں اور مہےنوں مےں اپنی رہائش اور رہن سہن تبدےل کرنے کے خواہش مند ہےں ۔راتوں رات امےر بننے کا جو راستہ انہوں نے منتخب کےا وہ درست نہےں ۔کےا وہ احساس کر پائےں گے © ؟کےا ضمےر انہےں ملامت کرے گا کہ دھوکہ دہی سے روپے کا حصول اور لاچاروں کی زندگےاں تباہ کرنا بہت بڑا جرم ہے ۔ضمےر کے مردہ ےا غائب ہونے سے انسانےت کی جگہ سفاکےت لے لےتی ہے ۔جب تک ضمےر نہےں جاگتا ،بےدار نہےں ہوتا ،حاضر نہےں ہوتا ،ےہ حرےصانہ ،خود غرضانہ روش ختم نہےں ہو سکتی ۔وطن عزےز مےں حکومتےں آتی ہےں ،جاتی ہےں لےکن ابھی تک کوئی بھی اےسی حکومت نہےں آئی جس نے دلی طور پر غربت مےں اسےر عوام کو افلاس کے گرداب سے نکالنے کا سوچا ہو اور اس کاز کےلئے اخلاص کا مظاہرہ کےا ہو ۔وسائل کی تقسےم مےں تناسب ہونا لازم ہے جس سے ہر فرد کی بنےادی ضرورتےں تو پوری ہوں ۔ہمارے نظام کی خرابی ےہی ہے کہ اس مےں دولت ہی اہم ہے ۔ضروری ہے کہ جمہورےت کی کامےابی کےلئے اےسا معاشی نظام جو منصفانہ تقسےم دولت کے اصول پر مبنی ہو قائم کےا جائے ۔اسلام نے معےشت مےں جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت سے جائےداد بنانے کے حق کو تسلےم کےا ہے ۔اسی طرح معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کےلئے ارتکاز دولت کےلئے اقدامات تجوےز کئے ہےں ۔انسانی اعضاءکی خرےدو فروخت اےک گھناﺅنا جرم ہے ۔ انسانی اعضاءکی پےوند کاری کا قانونی طرےقہ کار موجود ہے ۔وطن عزےز مےں بھی ےہ قانون موجود ہے ۔ کسی مرےض کا کوئی عزےز بھائی ،بہن ،باپ ےا دوست برضا و رغبت اپنا کوئی اعضاءdonateکرنا چاہتا ہے تو وہ بغےر کسی رکاوٹ کے اےسا کر سکتا ہے ۔زےادہ تر اعضاءکی پےوند کاری ان ممالک مےں ہوتی ہے جہاں پر لوگوں کا اعضاءعطےہ کرنے کا رجحان ہو ۔ امرےکہ اور ےورپ مےں اکثر لوگ اپنے پرس مےں ڈونر کارڈ رکھتے ہےں ۔جو لوگ اپنی زندگی مےں وصےت کر دےتے ہےں کہ مرنے کے بعد ان کے اعضاءان کے جسم سے حاصل کر کے ضرورت مند لوگوں کو لگا دئےے جائےں تو ان کو اےک کارڈ بنا کر دے دےا جاتا ہے ۔ان کی حادثاتی موت ےا دماغی موت کی صورت مےں ان کے اعضاءان کے جسم سے حاصل کر لئے جاتے ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے