کالم

امداد آکاش:جہان شعر کا پاکستانی سفیر

جب آکاش سچے دل سے اپنے بندوں کی امداد کرتا ہے تو اسلام آباد جیسے پیران تسمہ پا شعرا سے معمور شہر کو بھی سب سے زیادہ نوجوان ، اسمارٹ ، پریقین اور واقعتا بین الاقوامی شہرت اور شناخت کے حامل شاعر امداد آکاش کا ساتھ میسر آ جاتا ہے۔ایک حقیقی روشن خیال اور سچے ترقی پسند شاعر کی طرح امداد آکاش نہایت پرامن شاعر ہیں ، وہ موذی اور مضر صحت تو ہرگز نہیں ہیں ۔غلاموں کی خرید و فروخت سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔منصب اور دربار سے ہمیشہ دور رہتے ہیں ،اسی لیے وہ درباریوں اور حاشیہ نشینوں سے ہمیشہ گریز کرتے اور عامیوں کو ان کی جملہ خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں ۔ گزشتہ دونوں وہ ورلڈ پوئٹری موومنٹ کی جملہ تقریبات کا گرم جوش حصہ بنے ، انہوں نے کولمبیا سے لے کر وینزویلا تک پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے روشن خیالی اور ترقی پسندی کا چمکتا ہوا چہرہ دنیا کی نذر کیا ۔امداد آکاش رائٹرز یونین آف افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری (ایشیا)ہیں ۔چند سال بیشتر وہ اس رائٹر یونین کی اسلام آباد کانفرنس کے میزبان بھی بنے تھے۔دنیا کے چہرے کے سرمایہ دارانہ رخ اور دہشت گرد شباہت کے علاہ ایک پرامن ،سیر چشم اور امید بھرا مسکراتا ہوا چہرہ بھی ہے ۔امداد آکاش اسی پرامن ، سیر چشم اور مسکراتی ہوئی دنیا کے شاعر ہیں۔ ابھی چند روز ہوئے وہ میڈلین(کولمبیا)اور کراکاس (وینزویلا)میں ورلڈ پوئٹری کانگریس میں بامعنی شرکت کر کے واپس لوٹے ہیں۔ پاکستان کے صرف تصویروں پر گزارا کرنے والے اہل قلم کو بھی فیس بک کی کھڑکی سے ان کی سرگرمیوں پر مسلسل آنکھ رکھنے کا موقع ملا ہوا تھا ۔ کانگریس کے اختتام پر وینزویلا کے ایوان صدر میں دنیا بھر سے آئے ہوئے شاعروں کے اعزاز میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا ، اس تقریب میں امداد آکاش کے دنیا بھر کے شعرا اور شاعرات کے ہمراہ بے ساختہ رقص نے ،سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے بہت متاثر کیا۔رقص انسانی آزادی ، بے پایاں مسرت اور دوسروں کے لیے حد درجہ احترام کا برملا اعلان ہوتا ہے۔جب میری نگاہیں رقصاں شاعر کے تعاقب میں تھیں ،تو میں نے اسی لمحے یہ طے کرلیا تھا کہ اس مرد خود آگاہ سے عالمی شاعری کی کانگریس اور تحریک کے بارے میں استفسار کروں گا،دراصل میں جاننا چاہتا تھا کہ عصر حاضر میں ایک شاعر ہر طرح کے خوف ، وحشت ، دہشت ، مایوسی ، عدم مساوات اور ظلم و تشدد کی فضا میں پرمسرت و پرجوش امید کی علامت کیسے بن جاتا ہے ۔ ہوچی منہ نے کہا تھا کہ؛ جو قوم ناچنا جانتی ہو ،وہ جنگ جیتنا بھی جانتی ہے۔اسی طرح جو شاعر رقص کے طلسم کدے کا ہم راز ہو جائے وہ امید ، کامیابی اور خوشی کا پیام بھر بن جاتاہے۔میں نے حضرت امداد آکاش سے ان کے اس سفر ، اس کانگریس اور اس تحریک کے حال اور مآل کے بارے میں پوچھا ، طویل سفر سے تھکے ہوئے بھی تھے ، لیکن انہوں نے نہایت تروتازہ لہجے میں مجھے ورلڈ پوئٹری موومنٹ کے بارے میں بتانا شروع کیا ۔ "ورلڈ پوئٹری موومنٹ کی بنیاد 2011 میں ویتام میں رکھی گئی تھی۔مقصد اس تحریک کا یہ تھا کہ؛ہم شاعری کے ذریعے اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنا سکتے ہیں۔اور یہ کر سکتے ہیں کہ جنگوں کے خلاف ایک تحریک چلائی جائے،اسلحہ بنانے والوں کے ہاتھوں یہ دنیا یرغمال بنی ہوئی ہے ،اس کے خلاف ایک تحریک چلائی جائے ۔ زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کیا جائے،پوئٹری کے ذریعے محبت کا پیغام دیا جائے ۔یہ دنیا تمام مخلوقات کے رہنے کے قابل بنائی جائے،اس زمین پر جتنا حق انسانوں کا ہے ،باقی مخلوقات کا بھی اتنا ہی حق ہے۔ماحولیات کے حوالے سے ایکٹیویزم کیا جائے۔سڑکوں کے اوپر، کالجوں میں ،یونیورسٹیوں کے اندر، مختلف جگہوں پر ،جیلوں میں جا کر، شعری مظاہر کے ذریعے محبت کا پیغام عام کیا جائے ۔اور ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہماری زمین مر رہی ہے ، ہمارے ہاں حیات کے خاتمے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے ۔ ماحولیاتی حوالے سے بھی ، اور اسلحے کے حوالے سے بھی، نیوکلیر اسلحے کے حوالے سے بھی ۔تو اس تنظیم کا یہ بھی ایک سلسلہ ہے ۔میڈیلین کولمبیامیں ہر سال ایک بہت بڑا پوئٹری فیسٹیول ہوتا ہے ۔جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے شعرا شرکت کرتے ہیں ،دراصل میڈلین کو شاعری کا دارالخلافہ کہا جاتا ہے ۔ اس بار کولمبیا کے میڈلین اور وینزویلا کے کراکاس میں منعقد ہونے والے پویٹری فیسٹیولز میں ایک سو بیس ممالک کے شاعر اکٹھے ہوئے اور وہاں پر ایک کانگریس کا اہتمام کیا گیا ،جس کا عنوان تھا ”مائیگریشن فرام ڈیتھ ٹو لائف “زمین کو بچانے کے حوالے سے، حیات کو بچانے کے حوالے سے،محبت اور امن کا پیغام شاعری کے ذریعے پہنچانے کے حوالے سے ، زبانوں اور کلچر کو بچانے کے لیے،مختلف کلچرز کی حفاظت کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے ایک کانگریس ہوئی،دنیا میں شاعروں کی ایسی کانگریس کا انعقاد پہلا واقعہ ہوا ہے،ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا دنیا میں، یہ ایک تاریخ ساز لمحہ تھا،اور وہاں پر دنیا بھر کے ایک سو بیس ممالک کے شاعروں نے مختلف ریزولوشنز پاس کیے ہیں،یہ ایک تنظیم نہیں ،یہ دنیا بھر کے شاعروں کی ایک تحریک ہے ،اور اس تحریک کے ذریعے ہم دنیا بھر میں ایک بیداری پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔اس تحریک کا ایک باقاعدہ ایجنڈا تھا ، جس کے مطابق دنیا بھر میں پوئٹری اسکول قائم کیے جائیں گے ۔اس کے اندر مختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم کیے جائیں گے،ان کو چھاپا جائے گا ،الیکٹرانک میڈیا پر ان کی تشہیر کی جائے گی ،اور جو مقاصد اس تحریک کے بیان ہوئے ہیں ان کو عملی صورت دینے کےلئے شاعروں کا پیغام ارباب اختیار تک پہنچائیں گے اور جہاں جہاں ضرورت محسوس کی گئی ، وہاں وہاں عملی مظاہروں کا اہتمام بھی کریں گے“۔ گویا جس دنیا کو سیاستدانوں اور عسکریوں نے مل کر خراب کر ڈالا ہے ، اب دنیا بھر کے شاعر دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے اوربلاامتیاز تمام مخلوقات کے حفاظت ،خوشی اور خوشحالی سے رہنے کی جگہ بنانے کی جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں۔
۔۔۔(جاری ہے)
حضرت امداد آکاش نے کولمبیا سے ایک فیس بک پوسٹ میں پاکستانیوں کو خبر دی کہ؛ ”پیارے پاکستانیو یہاں کولمبیا میں تمہارے اقبال اور جناح کو کوئی نہیں جانتا ،ٹیگور اور گاندھی کو سب جانتے ہیں“یہ اطلاع ایمانداری اور درد مندی سے دی گئی تھی ۔شاعر کا خیال ہو گا کہ شاید متعلقہ ذمہ داروں کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ یہ پوسٹ پڑھ کر تھوڑی حیرت تو ہوئی ،لیکن پھر یاد آیا کہ؛ ٹیگور اور گاندھی کی مارکیٹنگ کرنے کےلئے تو ایک ملک موجود ہے۔جس کی وزارت خارجہ پورے خلوص اور نہایت پیشہ ورانہ طریقے سے دنیا بھر میں اپنے کلچر ، اپنے مشاہیر کی عظمت کا بیان اور اپنے لوگوں کی قبولیت اور محبوبیت کے لیے واقعتا دن رات محنت کرتی ہیں ۔دوسری طرف اقبال کا تصور اور جناح کا پاکستان کہیں اغواءبرائے تاوان ہو گیا،اور ریاست ان سے گریز کرتی ہے ۔ ایک قصہ سنیئے میںشاید 2015 میں ماریشش گیا ۔سرکاری مہمان تھا، مقصد اسلامک سینٹر پورٹ لوئیس، مہاتما گاندھی انسٹیٹیوٹ ،اور یونیورسٹی آف ماریشش میں لیکچرز دینا اور دیگر کلچرل ایکٹویٹیز میں شرکت کرنا تھا۔وہاں صحیح معنوں میں روحانی جمہوریت پائی جاتی ہے۔مسلم ، ہندو اور عیسائی آبادی مل جل کر رہتی ہے۔انڈیا وہاں کی مسلم اور ہندو کمیونٹی کےلئے بہت کچھ کرتا ہے۔اسکی ایک مثال مہاتما گاندھی کے نام پرایک بڑے تعلیمی ادارے کا قیام بھی شامل ہے۔ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں یہاں کے طالب علموں کو وظائف دیئے جاتے ہیں۔اسی طرح عیسائی آبادی کو پوچھنے کےلئے ایک دنیا موجود و متحرک ہے ۔حکومت میں اگر صدر مسلمان ہو تو وزیراعظم ہندو یا عیسائی ہوگا ۔یہاں مجھے میثاق مدینہ والی امت واحدہ نظر آئی۔ایک حیرت انگیز بات ہم پاکستانیوں کے لیے یہ تھی کہ وہاں کی صدر مملکت ایک مسلم خاتون تھیں،جو یونیورسٹی میں کیمسٹری کی پروفیسر بھی تھیں۔انہوں نے پاکستان سے آئے پروفیسر کو اپنے آفس میں ملاقات کا شرف بخشا ۔میرے ساتھ اردو اسپیکنگ یونین کے صدر بھی تھے ۔خیر ملاقات کی تفصیل کو الگ رکھتے ہوئے ،اصل بات کی طرف آتا ہوں۔اردو اسپیکنگ یونین کے صدر ،جو ماریشش کے بڑے صنعت کار بھی تھے ،مجھے پورٹ لوئس شہر کے وسطی علاقے میں ایک جگہ لے گئے۔بڑی بڑی عمارتوں میں گھرے ایک بہت بڑے خالی رقبے کے سامنے گاڑی کھڑی کرکے مجھے بتانے لگے کہ یہاں کی حکومت تینوں قسم کی کمیونٹیز کو یکساں سہولیات اور مراعات دیتی ہے۔یہاں انگلش اسپیکنگ یونین بھی ہے اور ہندی اسپیکنگ یونین بھی۔ یہاں ہم نے علامہ اقبال انسٹیٹیوٹ بنانے کے لیے حکومت سے یہ پلاٹ لے رکھا ہے۔ایک بار آپکے صدر پرویز مشرف یہاں آئے تھے تو انہوں نے وعدہ کیا تھاکہ پاکستان اقبال انسٹیٹیوٹ کی عمارات بنانے کے لیے رقم دے گا۔کچھ اسٹیمیٹس بھی طلب کیے گئے تھے۔ہم مسلم بڑے پرجوش تھے کہ یہاں ہم بھی ایک عالی شان ادارہ بنائیں گے لیکن اس کے بعد پاکستان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔یہ پلاٹ اگر ہندی اسپیکنگ یونین کے پاس ہوتا تو اب تک انڈین گورنمنٹ بہت کچھ تعمیر کر چکی ہوتی۔آپ پروفیسر اقبال اسٹڈیز ہیں ، اسلام آباد رہتے ہیں۔آپکی وہاں بڑی اہمیت ہوگی( ٹکے سیر۔۔ہاہاہاہا)آپ وہاں متعلقہ منسٹری کو صدر کا وعدہ یاد دلائیں،پاکستان اقبال انسٹیٹیوٹ کے فنڈز جاری کرے تاکہ ہم یہاں بڑا ادارہ قائم کر سکیں اور یہاں کی مسلم کمیونٹی کا مرکز بنا سکیں۔میں نے سفیر محترم سے بات کی ،وہ دلنشین انداز میں مسکرائے۔یہاں اسلام آباد میں ایک دو دوستوں سے کہا ،جو مسکرائے تو نہیں ،لیکن ان کے چہروں پر صاف لکھا نظر آرہا تھا کہ سانو کی؟اب بتایئے جس ملک کی خارجہ پالیسی کی کوئی پالیسی ہی نہ ہو تو وہ کوئی ملک تو نہ ہوا۔ہماری حکومتوں کا جو طرز عمل ہے ،آپ دیکھتے جایئے، دس پندرہ سال بعد یہاں بھی اقبال اور جناح کے جاننے والے ناپید ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے