کالم

انسانی حقوق کے نام پر خون کی سوداگری

ایک جانب بھارتی مودی نے رام مندر کا22جنوری کو باقاعدہ افتتاح کرنا ہے اور اس حوالے سے بھارتی میڈیا نے عجب طرح کا طوفان بد تمیزی برپا کر رکھا ہے ۔غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اس صورتحال کا بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طرح سے داعش کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔دوسری جانب بلوچستان دہشتگردی کی نئی لہر کی زد میں ہے اور اسی تناظر میں اسلام آباد میں بلوچستان شہدا فورم کے رہنماوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمال رئیسانی نے کہا کہ ہم ایک فرد واحد کی حیثیت سے یہاں موجود ہیں، ہم ایک قبیلے کی حیثیت سے یہاں موجود ہیںاور یہ قبیلہ شہدا کے ورثاءکا قبیلہ ہے۔ پاکستان میں بلوچ، سندھی، ہزارہ سے لوگ رہتے ہیںاور لوگوں کے ذہنوں میں ایک سازش کو جنم دےا جارہا ہے۔اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے موصوف کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر کی لگائی آگ میں بلوچستان جل رہا ہے، آج اس آگ میں ایک دوسرے کو لڑایا جاتا ہے اور اس سازش کا فائدہ ملک دشمن اٹھا رہے ہےں کیوں کہ بی ایل اے کی طرح دیگر تنظیمیں آج بھی بلوچستان میں موجود ہیں۔ اسی تناظر میں مزید کہا گےا کہ ملک دشمن عناصر سازشوں میں مصروف ہیں، مختلف زبان بولنے والوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے اور بھائی کو بھائی سے لڑا کر سازش کی جارہی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ کالعدم تنظیموں کو ہمارے پیاروں کو شہید کرنے کی اجازت کس نے دی؟ ہم اپنے پیاروں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ چند روز قبل وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی اسی ضمن میں کہا ہے کہ لاپتہ افرادکے لواحقین پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں آئندہ بھی کریں گے، ہم احتجاج تسلیم کرتے ہیں مگر کسی کی بھی دہشت گردی تسلیم نہیں کرئیں گے۔لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ احتجاج کا سب کو حق ہے مگر آئین کے اندر رہ کر کرنا چاہیے، مجھے خوشی ہوئی پنجاب کے لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں سے ہمدردی ہے مگر 9 مئی کو احتجاج کرنے والوں کا بھی یہی ایشو تھا وہ قانون کے دائرے سے باہر آگئے تھے۔بد قسمتی سے احتجاج والوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کو” غزہ “سے جوڑا جا رہا ہے، جو یہاں کی صورتحال غزہ سے جوڑ رہے تھے ان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، کسی نے پوچھا کہ بلوچستان میں مسلح تنظیمیں لوگوں کو قتل کیوں کرتی ہیں؟ کوسٹل ہائی وے پر 14 افراد جل کر مرگئے کسی نے نہیں پوچھا کہ قاتل کیوں نہیں پکڑے، بلوچستان میں ٹیچرز، وکلا، مزدور قتل ہو رہے ہیں کسی کے منہ سے لفظ تک نہیں نکلتا۔انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ احتجاج کی آڑ میں دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والوں کو قبول نہیں کریں گے، جن لوگوں نے حمایت کرنی ہے وہ ان مسلح تنظیموں کا کیمپ جوائن کریں، اپنے پیاروں کے لیے احتجاج کرنے والوں کو حق ہے، باقی صرف تنقید کر رہے ہیں۔ اسی حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ یہ ریاست اور مسلح تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہے، یہ مسلح لوگ 3 سے 5 ہزار لوگوں کو مار چکے ہیں، یہ لوگ دہشت گردی کو جدوجہد کہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مسلح تنظیمیں پاکستان کو توڑنےکی مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اگر آپ وہاں گئے تویہ آپ کو گولی ماریں گے، میں ان کے ہتھے چڑھا تو مجھے گولی ماریں گے اور یہ مسلح تنظیمیں اپنے موقف کا عملی اظہار کرتے آرہی ہیں، دہشت گردوں کے بھی لواحقین ہوتے ہیں، بہت سارے لوگ ان کے لیے احتجاج کرتے ہیں، ہم ان کے احتجاج کو تسلیم کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کے حق کو تسلیم نہیں کرتے، دہشت گردوں کے ساتھ اسی شدومد کے ساتھ لڑیں گے۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ نہ یہ 1971 ہے اور نہ یہ بنگلادیش بننے جارہا ہے، مجھے طعنے نہ دیں کہ بلوچ یاد رکھیں گے، میرا بلوچوں سے تین نسلوں کا تعلق ہے، حمایتی جواب دیں ڈاکٹر شفیع مینگل کو کس نے قتل کیا،کیا وہ بلوچ نہیں تھے؟ 90 ہزار افراد قتل ہوگئے، 9 ملزمان کو سزا نہیں ہوئی،کریمنل جسٹس سسٹم کس نے ٹھیک کرنا تھا؟ کیا کورکمانڈر کانفرنس یا واپڈا نے ٹھیک کرنا تھا؟ یہ میرا کام نہیں تھا کہ قوانین کو درست کرتا، ہمیں بھی ان عدالتوں پر اعتماد ہے، ان کو بھی ہے جائیں عدالتوں میں۔سنجیدہ حلقوں نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے رائے ظاہر کی ہے کہ توقع کی جانی چاہےے کہ حکومت سمیت معاشرے کے سبھی طبقات معاملات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اپنی اجتماعی اورانفراد ی ذمہ داریاں احسن ڈھنگ سے پوری کرئیں گے کیوں کہ محض انسانی حقوق کے نام پر کچھ حلقوں نے اپنے سطحی مفادات کی تکمیل کی خاطر جو ناقابل رشک روش اپنا رکھی ہے وہ کسی بھی طور قابل ستائش نہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے