بدعنوانی کا سہرا اپنے سر باندھنا یقینا مہذب، راست گو اور دیانت دار معاشرے میں مشکل، مگر ہمارے ہاں بدعنوانی اور جھوٹ سے بچنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف، بقول انور مسعود
"کروں گا کیا گر کرپشن چھوڑ دی میں نے،
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا ”
شعور کی بیداری کے بعد تو اب جھوٹ کے خلاف بولنے لکھنے والے بھی اسی طرح گوشہ عافیت کی تلاش میں ہیں کہ جس طرح 90 اور 2000 کی دہائی میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنا مشکل تھا.کہ ہر دو ہمارے معاشرے کی رگ و پے میں اس حد تک سرایت کر چکیں کہ کرپشن صرف مالی منفعت تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس کے دائرہ کار نے سوچوں کو بھی پراگندا کر دیا کہ اب دیانت شکوک کے سائے میں ہے اور جھوٹ کی پذیرائی ہے. تو ان حالات میں ایسے عنوانات قائم کرنا یقینا دل گردے اور اپنے آپ کو چہار جانب سے مطعون کروانے کے مترادف. مگر کیا کیا جائے کہ عنوان حقیقت بھی ہے اور سچ بھی. کہ اب اس معاشرے میں دیانت اپنے لیے دار کا سائبان تلاش کرتی پھرتی ہے اور سچ جھوٹ سے فرار چاہتا ہے. گرچہ وزیر اعظم نے کسی تقریب میں ان کا مقام و مرتبہ بیان کیا کہ ان کا موہوم سا تذکرہ لازم، اس لیے بھی کہ کتابوں اور خطابوں میں اس کی ضرورت. عنوان کی ایک مشکل اور بھی کہ عموما سیاست دان ہی کالم نگاروں، میڈیا اینکروں اور دانشوروں کے نشانہ پر رہتے ہیں، اور یہ بیچارے ان سب کا آسان ہدف. مگر اب سیاست دان بھی بدعنوانی کے دونوں معاونین عوام اور بیوروکریسی کو استعمال میں لانے کے فن میں طاق ہو چکے ہیں. آپ ہی بتاییے کہ اگر عوام بدعنوان نہ ہوں تو کیا کسی کرپٹ، بدکردار اور بد اخلاق کی انتخابی عمل میں کامیابی ممکن ہے ؟ مطلب کہ یہ تینوں برائیاں ووٹ دینے والوں کی بڑی اکثریت میں کہ جبھی تو انتخابات میں صادق و امین، اعلی کردار، بہترین اخلاق اور مدبر و مفکر کی ضمانتیں تک ضبط اور ان اوصاف سے عاری لاکھوں ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں. تینوں بڑی جماعتوں کے کارکنان سے بصد احترام سوال کہ کیا بیان کردہ اوصاف منتخب ممبران اسمبلی کو تو رکھیں پرے، کیا انکی قیادتیں بھی بیان کردہ معیارات پر پوری اترتی ہیں ؟. کیا کبھی انہوں نے اپنی قیادت کی کرپشن، اقربا پروری، بداخلاقی اور وعدہ خلافی پر باز پرس کی؟ عوام تو انکے ہر جھوٹ اور ہر بدعنوانی کی اسی طرح پردہ پوشی کرتے ہیں جیسے ممتا کے ہاتھوں مجبور مائیں اپنی ناخلف اولاد کی. بدعنوانی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے ساز گار ماحول میسر نہ ہو. بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کرپشن کی ہر داستان کے پیچھے اگر دماغ بیوروکریسی کا ہے اور چہرہ سیاست دان کا تو اسے تحفظ نظام انصاف دیتا ہے اور طاقت عوام. اگر ہر فرد اپنے سے یہ سوال پوچھے کہ کیا پاکستان کی تعبیر یہی تھی تو موجودہ حالات، واقعات و اقدامات یقینا ہر صاحب ضمیر کے دل پر بوجھ ہوں گے. ایک ایسی ریاست کہ جس کی اٹھان نہ صرف بغیر مالی و مادی وسائل کے ہوئی بلکہ برطانیہ ایسا دیو ہیکل دشمن ہمیشہ کے لیے سر پر مسلط کر گیا کہ جس کی، مکاری، کینہ پروری اور مسلمان دشمنی معروف، مگر اس کے باوجود اس مٹی کے فرزندوں کو جب جب پھلنے اور پنپنے کا موقع ملا تو اپنے مادر وطن کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے انہوں نے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دییے کہ دنیا ششدر و حیران، کہ ایمان کی طاقت یقینا وسائل میں برکت کا ساماں کرتی ہے. ناکامیوں کا رونا رونے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ تمام تر کوتاہیوں، بداعمالیوں و بدافعالیوں کے باوجود یہ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت، اپنے دشمنوں کے لیے سیف حیدری کہ شجاعت، کھیل، مختلف فنون میں مہارت، ہنر مندی، ایثار و قربانی، سماجی خدمات و بہترین دماغ کے ساتھ دنیا بھر میں ان کا منفرد مقام مگر بدقسمتی اس وقت شروع ہوتی ہے کہ جب عوام صادق و آمین اور راست گو پر بدعنوان اور جھوٹ کے علمبرداروں کو ترجیح دیتی ہے جس سے نااہل نہ صرف پارلیمنٹ میں بلکہ وسائل پر مختار بنتے ہیں پھر ریاست کے مادی وسائل بھی نوچے جاتے ہیں اور معاشرے میں اخلاقی رذائل بھی عام ہوتے ہیں۔اب اگر عوام مہنگائی، ناانصافی، لاقانونیت اور مسائل کا رونا روتے ہیں تو انہیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اصل خرابی کی جڑ بھی وہ خود ہی ہیں. کہ یہ عوام کا بدعنوانہ مزاج ہی تو ہے کہ جس کی وجہ سے خائن و بد دیانت اس قوم پر مسلط. اس میں تو شک نہیں کہ سرکاری ادارہ جات کا نظم نسق اور پیچیدہ قوانین بدعنوانی کا نکتہ آغاز اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ سرکاری افسران کی طرف سے اختیارات اور مراعات کا ناجائز استعمال نے بھی اسے خوب فروغ دیا. وفاق اور صوبہ جات کے چند ایک محکمہ جات کو چھوڑ کر کہ جو براہ راست عوام اور عوامی مسائل سے متعلق نہیں، ہر محکمہ میں بدعنوانی کا جادو سر چڑھ بولتا ہے. کہا جاتا ہے کہ اراکین اسمبلی کو بدعنوانی کی راہ مرحوم ضیا الحق کے غیر جماعتی انتخابات نے دکھائی جبکہ بیوروکریسی کو اس راہ پر لگانے کا سہرا مسلم لیگ ن کو جاتا ہے. 90 اور 2000 کی دہائی میں بدعنوانی کی جڑیں مضبوط ہوئیں اور اس دوران برسراقتدر طبقات نے بدعنوانی کے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ دنیا بھر میں ان کا چرچا رہا حتی کہ دیار غیر میں بسنے والے ہمارے ان حالات سے شرمندہ.اس دوران نہ صرف ادارہ جاتی کرپشن عام ہوئی بلکہ سیاست دانوں سمیت کئی طبقات نے کثیر سرمایہ بذریعہ منی لانڈرنگ بیرون ممالک منتقل کیا. اپنے قائدین کا اس میں انہماک اور طاقت کے بخوبی استعمال کو دیکھ کر اراکین اسمبلی میں بھی اس کا شوق پیدا ہوا، پھر ان کو کرپشن کی راہ دکھانے والے بابو کیسے پیچھے رہ سکتے تھے کہ جب ان سب کو تحفظ دینے والا نظام انصاف بھی موجود.!.! سو اب اگر ہمارا معاشرہ کرپشن زدہ ہے تو اس بنیادی وجوہات یہی جو بیان کی گئیں. اس ضمن میں ہماری اس تحریر کو تعصب یا منفی سوچ سے تعبیر کرنا مناسب نہ ہو گا. بدعنوانی اسی طرح ماضی کی دونوں بڑی جماعتوں کی سیاست کا جزولانفیک تھی جیسے اب جھوٹا بیانیہ ملک کی مقبول جماعت کے منشور کی بنیادی اکائی.گرچہ جھوٹ اور بدعنوانی کا ساتھ ہمیشہ سے ہے اور رہے گا مگر میں پھر بھی اس پہ قائم کہ ان دونوں برائیوں کے پھیلا میں اہم ترین کردار عوام کا ہی ہے کہ اعلی اوصاف کی حامل اقوام بار بار ایسوں کو منتخب کرتی ہیں اور نہ ایسے نظام کو سال ہا سال اپنے پر مسلط. باقی قارئین اس پر مزید بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں۔
کالم
بدعنوان عوام، کرپٹ نظام اور سیاستدان
- by web desk
- جنوری 11, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 52 Views
- 2 ہفتے ago