کالم

جیلوں کے بند ہوتے اور کھلتے دروازے

تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کا جیل میں آنا جانا لگا ہے اور ان کےلئے زندانوں کے در کھل بھی رہے ہیں اور بند بھی ہو رہے ہیں۔یاسمین راشد اور شیریں مزاری کی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری بڑی معنی خیز ہے۔عقل والوں کےلئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے فیاض چوہان اور تحریک انصاف کے 87کارکنوں کی نظربندی ختم کر کے رہا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ان کے گھروں میں سکون اور چین نہیں۔پولیس کے چھاپے اور دوبارہ گرفتار یاں جاری ہیں اور خزاں چھائی ہوئی ہے۔شیریں مزاری کو اڈیالہ جیل کے باہر سے گجرات پولیس نے پکڑا اوریاسمین راشد کو انسداد دہشتگردی عدالت نے 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔شیریں مزاری سمیت87 پی ٹی آئی کے کارکنوں سے تھوڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو نہ کرنے پر بیان حلفی بھی لیا گیا ہے۔آفرین ہے گردش ایام پر کہ جولوگ بڑھکیں مارتے ،حکومت کو للکارتے اور تڑیاں لگاتے نہ تھکتے تھے آج وہ بکری کی طرح منمنا رہے ہیں۔ ہاں البتہ شاہ محمود قریشی اور چودھری پرویز الہی عقل مندی کا ثبوت دے رہے ہیں اور انہوں نے خاموشی کا روزہ رکھ لیا ہے۔ ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چودہری عبدالعزیز نے حکم دیا ہے کہ شیریں مزاری ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو ایک بیان حلفی جمع کرائیں گی جس میں یہ حلف دیا جائے گا کہ وہ آئندہ کسی تخریبی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گی۔ ایک اور دوسرے کیس میں مذکورہ عدالت نے سانحہ9مئی کے ضمن میں گرفتاری کے بعد نظر بند کئے جانے والے 79کارکنوں کی نظر بندی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تحریک انصاف کے تمام کارکنان ڈپٹی کمشنر کو گھیراو جلاو اور توڑ پھوڑ سے دور رہنے کا بیان حلفی جمع کرائیں گے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنما بیان حلفی دیکر رہائی لینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں۔گرفتار یا نظر بند لوگوں کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح کوئی عدالت ہمیں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے اور ہماری جان چھوٹے۔ بے شمار معتوب حضرات اب برات کا اعلان کررہے ہیں ۔اور تو اور ایمان مزاری کو لیجئے۔ فرمایا انہوں نے میری والدہ کو ایک ہفتہ میں تیسری بارگرفتار کیا گیا جو قانون کی خلاف ورزی ہے، حکومت گھروں کو بربادنہ کرے ،میرا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ، افسوس عمران خان اپنے کارکنوں کو بھول گئے ہیں ۔ تحریک انصاف نے کڑے موسم اور شدید آندھیوں سے بچنے کے لیے ملک بھر میں آرٹیکل 245 کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہے۔ سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ عدالت عظمی اب ان کی داد رسی کر بھی سکے گی یا نہیں؟ ان کی شنوائی کو سنوائی ہو گی بھی کہ نہیں ؟پی ٹی آئی کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت آرٹیکل 245 کا نفاذ اور اس کے تحت ہونے والا کریک ڈاون کالعدم قرار دے۔کہا جاتا ہے عمر ایوب نے بیرسٹر گوہر کے توسط سے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے ۔ درخواست گزار کا موقف ہے آرٹیکل 245 کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے نہیں کیا جا سکتا، آرٹیکل 245 کا نفاذ سیاسی مخالفین کو افواج کے ساتھ لڑانے کے لیے ہے، فوجی عدالتوں میں ٹرائل بنیادی حقوق کے خلاف ہے،تاریخ میں کبھی ہزاروں سیاسی کارکنوں اور متعدد لیڈروں کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوا۔ذہن میں رہے کہ آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کسی ہنگامی صورت حال یا امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو طلب کرسکتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی آج کل خوب رونق جمتی ہے۔تحریک انصاف کے اکثر لوگ ریلیف کے لئے یہاں عدالتوں کی راہداریوں میں صبح شام پائے جاتے ہیں۔ایک ابھی ضمانت لے کے گیا نہیں کہ دوسراآن پہنچا۔ابھی پہلے کی ضمانت منظور ہی ہوئی ہے کہ اسے دوبارہ پولیس نے دھر لیا۔ یہ وہ منظر ہے جو ملک بھر میں آئے روز دیکھا جا رہا ہے اور تحریک انصاف والے رو رہے ہیں کہ ہائے ہائے کسی طرح کوئی ہماری جان چھڑائے۔اور تو اور عمران خان کا عرش معلی پر پہنچا ہوا دماغ بھی زمین پر آنے لگا ہے۔ان کی کبرو نخوت اور سرکشی و بغاوت کو بھی لگام لگنے لگی ہے۔انہوں نے دوبارہ گرفتاری کی صورت میں کارکنوں سے ہنگامہ نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔اللہ اللہ ! یہ پل بھر میں زمانے کو کیا ہو گیا کہ بے قراری کو قرار آ گیا۔اپنے بیان میں عمران خان نے کہا ہے کہ دوبارہ گرفتارکر لیا جا وں تو کارکن ہنگامہ نہ کریں، کارکنوں نے ہنگامہ کیا تو پی ڈی ایم کو بیانیہ ملے گا اور کارکنوں کے ہنگامے کو حکومت کریک ڈاون کیلئے استعمال کرے گی،پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خوفزدہ حکومت بد امنی کو کریک ڈاون کیلئے استعمال کرے گی، کامیابی کی پیشگوئیاں دیکھ کر حکومت ہمیں کرش کرنا چاہتی ہے۔یہاں ایک سوال پید ا ہوتا ہے کہ عمران خان کا بدلا ہو ا پینترا کیا جیلوں کے بند ہوتے اور کھلتے دروازے روک پائے گا ؟ اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی اور عمران خان ملک و قوم کا بہت نقصان کر چکے۔اب انہیں کوئی رعایت نہیں ملے گی اور نہ وہ نرمی کا منہ دیکھ سکیں گے ۔جو بویا ہے انہیں کاٹنا پڑے گا اور جیلوں میں ان کی آمدو رفت چلتی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے