مولاناابو الاعلی مودودی ؒنے تفہیم القرآن کے نام سے قرآن مجید کی تفسیرتحریر کی۔ قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر پر ا±ردو زبان میں اتنا کام ہو چکا تھا کہ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف برکت اور سعادت کے لیے تفہیم القرآن تحریر نہیں کیا بلکہ انکا حقیقی مقصد یہ تھا کہ عام تعلیم یافتہ لوگوں تک روحِ قرآن اور اس کتابِ عظیم کا حقیقی مدعا پہنچ سکے۔ اس کے لیے انہوں نے لفظی ترجمہ کی بجائے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا تاکہ ادب کی تند وتیز اسپرٹ جو قرآن کی اصل عربی عبارت میں بھری ہوئی ہے وہ متاثر نہ ہو کیونکہ یہی تو وہ چیز ہے جوسنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی ہے۔ جس کی قوت ِتاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالفین تک مانتے تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا وہ بالآخر نقدِ دل ہار بیٹھے گا۔ اور یہ سارے فوائد لفظی ترجمہ کے ذریعہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ مولانا نے تفہیم القرآن میں جس انداز کو اپنایا اس نے لاکھوں دلوں کو متاثر کیا خصوصاً نوجوان طبقے میں قرآن فہمی اور اس پر عمل کرنے کا احساس تیزی سے ابھرا۔ تفہیم القرآن چھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ (محرم 1361ھ ) فروری 1942 ءمیں تفہیم القرآن لکھنے کے کام کا آغاز ہوا۔ پانچ سال سے زیادہ مدت تک اس کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ سورة یوسف کے آخر تک ترجمانی اور تفہیم تیار ہو گئی۔ اس کے بعد حالات کی بنا پر مولانا کو کچھ لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ بعد ازاں 1948ءمیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے داخل ِ زنداں کر دیا گیا۔ جہاں انہیں تفہیم القرآن کے مواد پر کام کرنے کا خاصہ موقع ملا۔ 24 ربیع الثانی 1392ھ بمطابق 7 جون1972ءکوو تفہیم القرآن تیس سال چار مہینے کے عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس کے متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام علمی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی شخصیت اور فکر و فلسفہ کے حوالے سے مختلف یونیورسٹیوں میں مقالات لکھے گئے جس سے نہ صرف ان پر کیے گئے کام سے آگاہی ہوگی بلکہ ان کی علمی خدمات کو سامنے لانے کے لیے اہلِِ علم و فضل کو مزید موضوعات سامنے لانے اور طلبہ سے کام کروانے کےلئے راہ ہموار ہوگی۔ سید مودودیؒ 1903ءبمطابق 1321ھ میںریاست حیدرآباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اٹھارہ برس کی عمر میںبطور صحافی زندگی کا آغاز کیااور جمعیت علمائے ہندکے روزنامہ "الجمعیت” کے مدیر رہے ۔ 1920 میں جب ملعون گستاخ رسول راج پال نے حضور کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ’رنگیلا رسول‘ کتاب لکھی تو تحریک خلافت کے ممتاز رہنماءمولانا محمد علی جوہر نے جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کاش کوئی مسلمان اسلام میں جہاد کی ضرورت اور اہمیت بیان کرے چنانچہ مولانا مودودیؒ نے الجہاد فی السلام لکھی۔ علامہ اقبال ؒ نے اس کتاب کو بہترین قرار دیا اور انہوں نے اسے پڑھ کر فرمایا کہ آج تک اس سے اچھی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 1932ءمیں حیدرآباد سے ماہنامہ ترجمان القرآن جاری کیا تو علامہ اقبالؒ ، سید نذیرنیازی مرحوم اور میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ اقدام لاہور) سے پڑھوا کر سنتے اور بے حد تحسین فرماتے۔ انہیں سید مودودیؒ کی تحریروں میں گویا اسلامی مطلوب مل گیا تھا۔ انہوں نے سید مودودیؒ کو لاہور منتقل ہونے کےلئے کئی خطوط تحریر کئے۔ انہی دنوں میں جمال پور تحصیل پٹھان کوٹ کے مخیر مسلمان چودھری نیاز علی نے خدمت دین کےلئے وسیع رقبہ وقف کر دیا ۔ چودھری نیاز علی کے مشورہ کرنے پر علامہ محمد اقبالؒ نے سید مودودیؒ کا نام لیا کہ وہ اس کام کےلئے انتہائی موزوں شخصیت ہیں۔ انہوں نے سید مودودیؒ سے خط و کتابت کی اور انہیں جمال پور (پٹھان کوٹ )آنے کو کہا۔ سید مودودیؒ 1938 میں جمال پور آئے مگر اپریل 1938 میں علامہ اقبالؒ رحلت فرماگئے۔ سید مودودیؒ کےلئے علامہ اقبالؒ کی رحلت بہت بڑا صدمہ تھا۔حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کو نوجوانوں کی تن آسانی ہمیشہ رلاتی رہی۔ سید مودودیؒ مرحوم نے اس تن آسانی کو سخت کوشی میں تبدیل کرنے کی تدبیر نکالی اور جس آہ و سحر کو حضرت علامہ اقبالؒ دیکھنے کے آرزو مند تھے ، سید مودودیؒ نے وہ آہ و سحر نوجوانوں میں عملاً پیدا کردی۔ یوں سمجھئے کہ سید مودودیؒ نے اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم کر کے علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر پوری کر دی اور اس کے ساتھ ہی ملت اسلامیہ کو ہولناک تباہی و ہلاکت سے بچا کر احیائے دین کی تحریکوں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ سید مودودیؒ نے نوجوانوں کو اسلام کا نہایت سلیس ، عام فہم لٹریچر فراہم کیا۔ جمعیت کا ہر رکن بالعموم اسلامی عقائد اور اخلاق کا مبلغ دکھائی دیتا ہے اور گھر گھر پھر کر دین کی تبلیغ کرنے اور تعلیمی اداروں میں یہ نوجوان اسلام کے اخلاقی اعلیٰ اقدار کے حامل نظر آتے ہیں۔ ان نوجوانوں نے سارے ملک میں بے شمار اسلامی لائبریریاں قائم کیں اور اکثر نوجوانوں کے ہاتھ میں تفہیم القرآن کے نسخے نظر آنے لگے۔ سید مودودیؒ نے ہمارے بزرگوں، نوجوانوں اور عام لوگوں میں اسلامی فکر و نظر، ذوق و عمل اور شوق عبادت پیدا کر کے وطن عزیز میں اسلامی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کی۔ علامہ اقبالؒ 1930ءکے بعد سیاست میں کافی حد تک متحرک ہوئے لیکن ایک مفکر کے طور پر انہوں نے تخلیق اور فکر پر زیادہ زور دیا، یہ ان کی تخلیق اور فکر کے حوالے سے اوج کا زمانہ تھا، انہوں نے اپنی تخلیق اور فکر کے تصور کو عملی صورت میں ڈھالنے کےلئے جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ و دیگر شخصیات کو ابھارا، وہاں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تاکہ وہ اس خطے میں جہاں ان کے خیال کے مطابق اسلامی ریاست بنانا مقصود تھی بیٹھ کر عملی جدوجہد کریں۔ علامہ اقبالؒ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ ”دو قومی نظریے“ کے زبردست داعی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح کانگریس اور ان کے ہمنواﺅں کا محاسبہ کیا وہ ان کے نزدیک قابل تحسین تھا۔