عبدالواسع ملک
افغانستان کی تاریخ میں اصل تباہی وہ نہیں جو جنگوں نے کی، بلکہ وہ ہے جو امن کے نام پر فریب نے برپا کی۔ ہر بار جب اس سرزمین نے جنگ کے زخموں سے نکلنے کی کوشش کی، اسے مصالحت کے لبادے میں نیا دھوکہ دیا گیا۔ دوحہ کا معاہدہ بھی اسی فریب کی ایک تازہ مثال تھا۔ ایک ایسا معاہدہ جسے دنیا نے امن کی نوید سمجھا، مگر جو دراصل سیاسی چال اور تزویراتی دھوکے کا جال ثابت ہوا۔فروری 2020 میں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے پر دستخط ہوئے، تو امید کی ایک لہر اٹھی کہ شاید اب افغانستان مکالمے، مفاہمت اور استحکام کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔ یہ سمجھا گیا کہ اب عسکریت پسندی کی جگہ سیاسی بصیرت لے گی، اور تشدد کی جگہ قومی ہم آہنگی جنم لے گی۔ مگر محض پانچ برس بعد یہ امیدیں ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ طالبان نے امن کے وعدے کو طاقت کے مظاہرے میں بدل دیا، سفارتکاری کو دہشت کے فروغ کا آلہ بنا لیااور افغانستان کو ایک بار پھر انتہا پسندی اور بے یقینی کے گرداب میں دھکیل دیا۔
دوحہ معاہدہ بظاہر چار ستونوں پر کھڑا تھا۔ سب سے پہلا اور اہم وعدہ یہ تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک، خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اس شق کا مطلب یہ تھا کہ طالبان تمام دہشت گرد گروہوں سے اپنا تعلق ختم کریں گے۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی 2025 کی 35ویں رپورٹ کے مطابق صورتحال اس کے برعکس ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان اب بھی دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے، تحریکِ طالبان پاکستان افغانستان میں سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کے طور پر سرگرم ہے۔ رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت ہر ماہ 30 لاکھ افغانی (تقریباً 43 ہزار امریکی ڈالر) ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کے خاندان کو ادا کرتی ہے۔ٹی ٹی پی کو افغانستان کے اندر پناہ گاہیں، تربیتی مراکز اور وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ کنڑ، خوست، ننگرہار اور پکتیکا جیسے صوبے اب دہشت گردی کے علاقائی مراکز بن چکے ہیں جہاں خودکش حملہ آوروں کی تربیت اور نظریاتی برین واشنگ طالبان کے زیرِ سرپرستی جاری ہے۔ یوں دوحہ معاہدے کی بنیادی روح دہشت گردی کے خاتمے کو طالبان نے خود پامال کر دیا۔
دوحہ معاہدے کا دوسرا اہم نکتہ افغانستان کے تمام نسلی، مذہبی اور سیاسی گروہوں پر مشتمل ایک جامع سیاسی ڈھانچے کی تشکیل تھا۔ طالبان نے اس پر رضامندی ظاہر کی، مگر جب اقتدار ان کے ہاتھ آیا تو انہوں نے تمام وعدے روند ڈالے۔ 2021 کے بعد سے افغانستان ایک بار پھر ایک یک جماعتی آمرانہ نظام کے زیرِ سایہ آ گیا ہے۔حکومت پر قندھاری سخت گیر دھڑے کا قبضہ ہے، خواتین، اقلیتوں اور مخالف آوازوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ 2025 میں اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے تعاون سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں صنفی فرق سب سے زیادہ ہے۔ صحت، تعلیم اور روزگار میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق 76 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔خواتین اپنی صلاحیت کا محض 17 فیصد استعمال کر پا رہی ہیں، جبکہ عالمی اوسط 60.7 فیصد ہے۔ 78 فیصد افغان خواتین تعلیم، ملازمت یا تربیتی مواقع سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ طالبان نے ’’امر بالمعروف‘‘ کے مقدس عنوان کو اپنی سخت گیر سماجی پالیسیوں کا جواز بنا کر، صنفی امتیاز کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ اس مذہبی نعرے کے پردے میں خواتین کو تعلیم، روزگار اور عوامی زندگی سے منظم طور پر محروم کر کے، افغان معاشرے کو مذہبی تعبیر کے نام پر سماجی جمود میں قید کر دیا گیا ہے۔
معاہدے کی تیسری شق قیدیوں کی رہائی سے متعلق تھی۔ اسے ایک اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر پیش کیا گیا، مگر حقیقت میں یہی اقدام خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا۔ ہزاروں طالبان قیدیوں کی رہائی نے عسکریت پسندی کو از سر نو جنم دیا۔انہی میں سے متعدد سخت گیر جنگجو دوبارہ ہتھیار بند ہو کر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم ہو گئے۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک نئی دہشت گردی کی لہر کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف 2025 میں پاکستان نے 62 ہزار سے زائد انٹیلی جنس آپریشنز کیے۔ ان آپریشنز میں 1,667 دہشت گرد ہلاک ہوئے جِن میں 118 افغان باشندے بھی شامل تھےاور 4,373 کارروائیاں ناکام بنائی گئیں۔ لیکن ان کارروائیوں کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی — ایک ہزار سے زائد شہادتیں، جن میں فوجی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور عام شہری شامل تھے۔یہ سب کچھ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ طالبان نے جو امن کا وعدہ‘‘ کیا تھا، وہ دراصل ’’خطرے کی تجدید ثابت ہوا۔ ان کے وعدوں کی ناکامی نے پاکستان کو ایک مسلسل دفاعی جنگ میں دھکیل دیا ہے۔حالیہ پاک افغان کشیدگی کےدوران بھی 206افغان طالبان مارےگئےاور فتنہ الخوارج کے 112 دہشتگرد ہلاک ہوئے۔
دوحہ معاہدے کا چوتھا اور آخری ستون افغانستان کے عالمی برادری سے تعلقات کی بحالی سے متعلق تھا۔ طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ذمہ دار طرزِ حکمرانی اپنائیں گے، لیکن پانچ برس بعد افغانستان عالمی سطح پر تنہا کھڑا ہے۔ نہ کوئی بڑی طاقت اس حکومت کو تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی کوئی ملک اس کے ساتھ پائیدار تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہے۔افغانستان کی معیشت منشیات، اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت پر چل رہی ہے۔ پوست کی کاشت اور ہیروئن کی تیاری طالبان کے زیرِ انتظام ایک مکمل صنعتی نظام بن چکا ہے۔ پاکستان کی وادی تیرہ میں حالیہ انسدادِ منشیات آپریشنز میں انکشاف ہوا ہے کہ مقامی کھیتوں میں 12,000 ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت ہو رہی ہے، جس کا فی ایکڑ منافع 18 سے 32 لاکھ روپے ہے۔یہ پیداوار افغانستان اسمگل کر کے وہاں طالبان کی سرپرستی میں ہیروئن اور میتھ میں تبدیل کی جاتی ہے۔یہ نظام دراصل ایک جرائم پر مبنی معیشت ہے جسے طالبان حکومت نے خود فروغ دیا ہے۔
طالبان کا رویہ حالیہ بین الاقوامی اجلاسوں میں بھی اسی تکبر اور خودفریبی کا مظہر رہا۔ دوحہ میں اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ہونے والے اجلاس اور بعد ازاں استنبول مذاکرات میں طالبان نے افغان سول سوسائٹی، خواتین نمائندوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ نہ سوال سننے کے لیے تیار ہوئے، نہ کسی تنقید کو برداشت کیا۔ حتیٰ کہ قطر اور ترکی جیسے ممالک، جو روایتی طور پر طالبان کے قریب سمجھے جاتے تھے، ان کے رویے سے مایوس ہو چکے ہیں۔یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان سفارتکاری کو محض ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں — ایک ایسا حربہ جس کے پیچھے وہ اپنی سخت گیر پالیسیوں، انتہا پسندانہ نظریات اور دہشت گردی کے تعاون کو چھپاتے ہیں۔
آج کا افغانستان ایک "روگ اسٹیٹ” یعنی بدمست ریاست کی تصویر پیش کر رہا ہے ایک ایسی حکومت جو نہ بین الاقوامی قوانین کو مانتی ہے، نہ اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرتی ہے۔ طالبان نے امن معاہدے کو طاقت کے حصول کا ذریعہ بنایا، اور اب اسی طاقت سے اپنے عوام پر جبر روا رکھے ہوئے ہیں۔دوحہ معاہدے کی ناکامی دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ سفارتکاری تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب نیت میں دیانت ہو۔ طالبان نے سفارتکاری کو دھوکہ دہی کا ہنر بنا دیا، اور دنیا نے ان پر اعتماد کر کے وہی غلطی دہرائی جو تاریخ کئی بار دیکھ چکی ہے۔جو ملک اپنی سیاست کو دہشت سے طاقت دیتا ہے، وہ کسی دوسرے کے لیے امن کا ضامن نہیں بن سکتا۔ اب وقت ہے کہ دنیا طالبان کے ساتھ نرمی کے بجائے ’’حساب‘‘ کی پالیسی اپنائے— کیونکہ امن کے نام پر دیا گیا ایک اور دھوکہ اس پورے خطے کو مزید تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
کالم
دوحہ سے استنبول تک: امن کے وعدے سے دہشت کی واپسی تک
- by web desk
- نومبر 9, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 15 Views
- 6 گھنٹے ago
