کالم

دین، ریاست اور نعرہ بازی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک پرانا مگر خطرناک کھیل پھر گرم ہے: دین کے نام پر ریاست کو دبا میں لانے کا، آئین کو کمزور دکھانے کا، اور پیچیدہ قومی مسائل کو سادہ نعروں میں لپیٹ کر عوام کو جذباتی کرنے کا۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کا رشتہ ہمیشہ حساس بھی رہا ہے اور طاقتور بھی۔ جب یہ رشتہ اخلاقی رہنمائی، سماجی انصاف اور عوامی فلاح کیلئے استعمال ہوا تو اس نے معاشرے کو سہارا دیا، مگر جب اسے اقتدار، دبا اور ادارہ جاتی غلبے کیلئے بروئے کار لایا گیا تو اس کے نتائج انتشار، کمزور ریاست اور تقسیم شدہ قوم کی صورت میں سامنے آئے۔ حالیہ دنوں میں مجلس اتحادِ امت پاکستان کے اعلامیے نے ایک بار پھر یہی سوال زندہ کر دیا ہے کہ کیا ہم شریعت کو ایک سنجیدہ اخلاقی و قانونی نظام کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، یا اسے محض ایک نعرہ بنا کر ہر پیچیدہ قومی مسئلے پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کیلئے استعمال کریں گے؟ اس اعلامیے کے مطالبات محض مذہبی جذبات کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ایک مخصوص ذہنیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آئین، ریاستی نظم اور عوامی مفاد کو ثانوی حیثیت دے کر دین کو فیصلہ کن طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں، اور جہاں خاموشی نہیں بلکہ دلیل، فہم اور واضح مکالمہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے نفاذِ شریعت کی بات کی جائے۔ یہ نعرہ سننے میں بڑا مقدس لگتا ہے، مگر اس کے پیچھے ایک سادہ حقیقت چھپی ہے: کس کی شریعت؟ کس فقہ کی تعبیر؟ کون فیصلہ کرے گا؟ پاکستان میں مسلکی تقسیم اتنی گہری ہے کہ بعض حلقے ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنے میں تردد کرتے ہیں۔ جب مذہبی قیادت اپنے اندر اتفاقِ رائے پیدا نہیں کر سکتی تو ریاست پر ایک واحد تعبیر مسلط کرنے کا مطالبہ دراصل شریعت نہیں، فرقہ وارانہ قبضے کی کوشش ہے۔ دین معاشرے کو جوڑنے آیا تھا، مگر جب اسے طاقت کے کھیل میں بدلا جائے تو نتیجہ دین کی خدمت نہیں، دین کی بدنامی ہوتا ہے۔ قرآن خود خبردار کرتا ہے ،مگر یہاں اتحاد کے بجائے اختلاف کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش نظر آتی ہے، جو دین کے مقصد کے بالکل الٹ ہے۔پھر سود کے خاتمے پر جنگ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ الفاظ عوام کو بھڑکاتے ہیں مگر کوئی قابلِ عمل نقشہ نہیں دیتے۔ جدید معیشت نعروں سے نہیں چلتی۔ اگر مالی نظام کو بغیر متبادل اور بغیر مرحلہ وار تیاری کے الٹ دیا گیا تو سب سے پہلے نقصان کس کو ہوگا؟ بینک کو نہیں، غریب ڈپازٹر کو؛ بڑے سرمایہ دار کو نہیں، چھوٹے تاجر کو؛ اشرافیہ کو نہیں، روزگار کو۔ شریعت کا بنیادی اصول نہ نقصان پہنچا اور نہ نقصان کے بدلے نقصان دو ہے، مگر یہاں مذہبی جذبات کو ہتھیار بنا کر عوامی نقصان کو قربانی کے طور پر بیچا جا رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جن ممالک کو اسلامی کہا جاتا ہے، ان میں سے کون سا ملک آج مکمل اور عملی طور پر سود سے پاک قومی بینکاری نظام چلا رہا ہے؟ جواب عموما ًخاموشی ہے، کیونکہ حقیقت نعروں سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ شریعت کا بنیادی اصول خود قرآن میں جھلکتا ہے:یرِید اللہ بِم الیسر ولا یرِید بِم العسر البقرہ: 185۔اور حدیث میں واضح ہے:لا ضرر ولا ضِرار۔اسکے باوجود عوامی نقصان کو دینی قربانی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ایک مسلم ملک بھی آج مکمل اور عملی طور پر سود سے پاک قومی بینکاری نظام نہیں چلا رہا۔مدارس کی رجسٹریشن پر شور بھی اسی طاقت کے تحفظ کی علامت ہے۔ رجسٹریشن سے اصل مسئلہ دین نہیں، کنٹرول ہے۔ جب کوئی ادارہ مالی شفافیت، فنڈنگ کے ذرائع، بچوں کے تحفظ اور انتظامی نظم کے بنیادی تقاضے قبول نہیں کرتا تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کس چیز کو چھپانا چاہتا ہے؟ پھر جب ریاست نظم کی بات کرے تو اسے دین دشمنی بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ بیانیہ مذہب کی خدمت نہیں، مذہب کی آڑ میں مفاد کی حفاظت ہے۔ کم عمری کی شادی کے معاملے میں بھی وہی پرانی چال ہے: اسلام نے عمر مقرر نہیں کی۔ ٹھیک، مگر کیا اسلام نے بچوں کو غیر محفوظ چھوڑ دینے کی اجازت دی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج کم عمری کی شادی کیساتھ تعلیم کا خاتمہ، صحت کے سنگین خطرات، جبری فیصلے اور زندگی بھر کی محرومی جڑی ہوئی ہے۔ ریاست کا کام محض فقہی جملہ دہرانا نہیں، حفاظتی معیار بنانا ہے ۔ جو لوگ اس پر شور کرتے ہیں، وہ اکثر یہ نہیں بتاتے کہ متاثرہ بچی کے مستقبل کا ذمہ دار کون ہوگا؟ شریعت کا مقصد کمزور کا تحفظ ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا:لم راع ولم مسئول عن رعِیتِہِ۔ اور افغانستان کے معاملے پر؟ یہاں بھی دوغلا پن صاف نظر آتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت نعروں کی نہیں، نظم، سنجیدگی اور ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ شریعت کا نام لے کر ریاستی ڈھانچے کو دبا میں لانا، معیشت کو غیر یقینی میں دھکیلنا، کمزور طبقات کے تحفظ کو ثانوی بنانا اور قومی سلامتی جیسے معاملات کو جذباتی بیانیوں کے سپرد کرنا نہ دین کی خدمت ہے اور نہ قوم کے مفاد میں۔ اسلام کا پیغام عدل، حکمت اور توازن کا ہے، جیسا کہ قرآن واضح کرتا ہے: ِن اللہ یمر بِالعدلِ والِحسانِ۔ جو بیانیہ انصاف، عوامی مفاد اور اجتماعی نظم کو کمزور کرے، وہ خواہ کسی بھی مذہبی لبادے میں ہو، اصلاح نہیں بلکہ فساد کا راستہ کھولتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ مذہب کو سیاست کی ڈھال بنانے کے بجائے اخلاقی رہنمائی کے مقام پر واپس رکھا جائے، اور ریاستی فیصلے دلیل، آئین اور عوام کے حقیقی مفاد کی بنیاد پر کیے جائیں۔ اسی میں دین کی حرمت ہے، اسی میں ریاست کی بقا، اور اسی میں قوم کا مستقبل۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے