ہمارے معاشرے میں رواج ہے کہ جب بیٹا پیدا ہوتا ہے تو اپنی اپنی بساط کے مطابق خوشی منائی جاتی ہے اور اگر بیٹی پیدا ہو تو سوگواری کا علم ہوتا ہے ، بیٹے سے آگے نسل چلتی ہے اور بیٹی تو پرایا دھن ہوتی ہے ، بابل کے گھر کچھ عرصہ مہمان رہ کر پیا کے دیس چلی جاتی ہے ، رخصتی کے وقت ڈھیروں مال ،د ولت لیکر جاتی ہے ، شاید اس لئے بیٹی کو بوجھ سمجھ کر پالا جاتا ہے ، اللہ نے وراثت میں جو بیٹی کے حقوق رکھے ہیں وہ بھی نہیں دیئے جاتے، آسائش تو بیٹے کا حق سمجھا جاتا ہے اور بہن بھائی کے حق میں اپنے تمام حقوق سرنڈر کرتی رہے ، اس فعل کا درس اسے بچپن سے جوانی اور پھر پرائے گھر جانے تک جاری رہتا ہے ، ناز و نعمت اور دوسروں کے حقوق اپنے لئے استعمال کرنے کی تعلیم ، تربیت میں پروان چڑھا ہوا مرد معاشرے کا ایک متوازن سوچ رکھنے والا فرد نہیں رہتا بلکہ پریکٹیکل لائف میں وہ اپنی ہمت کے مطابق ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتا ہے کہ شارٹ کٹ کے ذریعے اس کی زندگی ہر قسم کی آسائشوں کے ماحول میں میں گزرتی رہے ، جائز اور ناجائز کی سوچ فرسودہ اور دقیانوسی لوگوں کے خیالات معلوم ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو زندگی تو فرعون کی چاہتے ہیں اور عاقبت موسیٰ علیہ اسلام کی ، یعنی دونوں جہانوں کی کامیابیاں ، ایک طویل عرصے سے ناجائز دولت کے سہارے نمایاں ہونےوالے افراد نے معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے ، اخلاقیات کے نئے اصول وضع ہوچکے ، مذہب کی بات کرنےوالے اور زندگی بسر کرنے معاشرے کا ناکام طبقہ سمجھے جانے لگے ہیں ، بڑا گھر ، بڑی گاڑی ، مہنگا لباس ، مہنگے ہوٹلوں میں آنا جانا سٹیٹس بن چکا ہے ، جن کے پاس ناجائز ذرائع سے دولت کی ریل پیل ہوتی ہے وہ پھر اسے مقامات اور اداروں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جہاں طاقت استعمال کرنے کے زیادہ مواقع ہوں ۔ تعلیم اور تربیت جو ایک زمانے میں خصوصی اہمیت کے حامل تھے ، آجکل دولت نے ان کی جگہ لے لی ہے ، معاشرہ اس وقت بے حسی ، موقع پرستی ایک دوسرے کو روندتے ہوئے آگے بڑھنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے ، نمود و نمائش زندگی گزارنے کا خاصہ ہے ، ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کا ہنر اگر نہیں آتا تو وہ بیچارہ ناکام صلاحیتوں سے عاری شخص کسی بھی گروہ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا، بس زندگی جیسے جیسے گزارنے پر مجبور ہوتا ہے ، معاشرے میں ہمیشہ سے مختلف پیشے متعارف ہیں ان میں ایک پیشہ طویل عرصہ سے متعارف ہے جسے سیاست کہا جاتا ہے ، اس پیسے کے اختیار کرنےوالے سیاستدان کہہ کر پکارا جاتا ہے ، یہ پیشہ اپنی افادیت کے اعتبار سے تمام باقی پیشوں سے سبقت لے جاچکا ہے ، پیسہ جیسے بھی کمایا ہو چرب زبانی کی صلاحیت بھی ہو ، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کی صلاحیت ہو ، بڑی گاڑی، بڑا گھر کچھ اسلحہ قانونی اور غیر قانونی گھر اور گاڑی میں موجود کچھ حفاظتی فرائض پر منازل آسان ہوجاتی ہے ، بے اصولی سیاست اور اپنے آپ کوبکاو¿ کموڈیٹی کے طور پر پیش کئے رکھنا ایک بہترین صلاحیت تسلیم کی جاتی ہے ، اگر قسمت نے یاوری کی اور پیشہ ورسیاستدان علاقائی ، صوبائی یا قومی اسمبلی میں بحیثیت ممبر منتخب ہوجائے تو وارے نیارے ہوجانے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہتا ، حلقے کی ترقی کیلئے جو کروڑوں روپے فنڈ حکومت کی طرف سے عوامی مفاد میں انہیں مہیا کئے جاتے ہیں وہ تو یوں کہیے سلامی ہوتی ہے ، باقی ان نمائندوں کی ذاتی صلاحیتیں ہوتی ہیں کہ وہ الیکشن پر خرچ کے نیچے رہ کر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں ، چھتری جس قدر پھیلاو¿ میں زیادہ اور اپنے ہونے میں مضبوط ہوگی اسی قدر دولت بلکہ اس کی سیراب کرنے کی صلاحیت بھی خوب ہوگی ۔ دانشوروں کی زلفوں کی طرح ارد گرد بکھرے اور الجھے ہوئے قوانین اور ان کے محافظ راستے کی نشاندہی کیلئے دست بستہ کھڑے ہوں گے یعنی جس کو پیا چاہے وہی سہاگن ، ملکی حدود سے غیر ملکی حدود میں پر پر تعیش زندگی کے شب و رو ز کا مزہ ہی الگ ہے ، پاکستانی عوام کی جماند رو بدقسمتی ہے کہ انہیں بار بار دھوکہ دینے والے اپنے سگے لگتے ہیں ، وہ لٹ پھٹ کر بھی پرانے ٹھگوں کے سینے سے چمٹ کر سکون پاتے ہیں ، پاکستانی سیاسی فضائیں زیرو سے ہیرو ، جن کے بائیسائیکل نہیں ہوتی وہ کچھ ہی عرصہ بعد ذاتی جہازوں کے مالک بن جاتے ہیں ، دولت کہاں سے آئی کیسے آئی یہ کوئی نہیں پوچھتا ، سب چلتا ہے اس پاک دھرتی پر ، عوام ڈھول کی تھاپ کرنا چنے والی کٹھ پتلیاں ہیں جن سے کوئی ڈر خوف نہیں انہیں جب دل چاہے چاول کی دس بیس دیگیں پکاکر بلوالیں وہ جلسے جلوسوں میں بھی حاضری کا شرف حاصل کریں اے اور اپنے پھٹے پرانے لباس سے راہنما کی گاڑی کو صاف کرکے چمکا بھی دیں گے ، با اختیار ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں اور بے اختیار محکومی میں جانوروں کی طرح بے زبا ن گلے میں وفاداری کی گھنٹیاں باندھے لیڈر کے باڑے میں بند رہتے ہیں ، عوامی رہنماو¿ں بلکہ بے وفاو¿ں کے جلسوں پر ایک ایک وقت میں کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں ان سے محتسب نہیں پوچھتے کہ پیسہ کہاں سے آیا ، پارٹی فنڈ کہہ دینے سے تو خلاصی نہیں ہوتی ، پاکستان کی زمین قبضہ گروپ کی مٹھی میں بند ہوچکی ہے ، آئے دن سوسائیٹیز بنت اور پھیلتی جارہی ہیں ، پیسے اکٹھے کرنا اور غائب ہوجا نا انکا شیوہ ہے ۔ فسانہ دل کہاں تک سنیں گے آپ ایک ایک زخم کی روداد سنانے کےلئے عرصہ چاہیے ، ملک کی معیشت ڈوب گئی ، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ، قومی خزانہ ادھار کی چکی میں پس رہا ہے ، بہتر ہونے کی صورت نظر نہیں آرہی ، غریب عوام دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پورا کررہی ہے ، طرح طرح کے ٹیکس عوام کا خون نچوڑرہے ہیں ، غلط پالیسیاں بنانے اور چلانے والوں کا احتساب کیوں نہیں ہوتا ، صاحب اقتدار کیا یہ چاہتے ہیں کہ عوام سڑکوں پر مقتدر لوگوں کی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے گھسیٹیں ، تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق معاشی طور پر بدحال قوم کچھ بھی کرسکتی ہے ، سیاسی کماو¿ پتر دن بدن خوشحالی بلکہ لامحدود خوشحال ہوتے جارہے ہیں اور عوام حالوں بے حال ، جب بداعمالیوں کا بدلہ ملے تو یہی عذاب ہوتا ہے ، سیاست کے پیشے سے منسلک نسل درنسل چلے آرہے ہیں ، عوام کو بے و قوف بناکر اپنی تجوریاں بھررہے ہیں ، ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی میں سوار ہوکر ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر عوامی خدمت نہیں ہوتی ، تکبر کی فضا و¿ں میں رہنے والے اپنا حال اور مستقبل تو محفوظ اور مضبوط بنارہے ہیں لیکن عوام ہر دن کے طلوع ہونے پر یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ عزت سے آج کا دن کیسے گزارا جائے ، سیاسی کماو¿ پتر و کچھ حیا کرو ،کچھ شرم کرو عوام پر رحم کرو، انہیں بھی جینے کا حق ہے یہ حق نہ چھینو۔