بلاشبہ پاکستان ایک مکمل جمہوری جدو جہد کے بعد وجود میں آیا اور اسکا مستقبل بھی جمہوریت سے وابستہ ہے، کسی بھی جمہوری ،آزاد اور خود مختار ملک کے لیے اس کا یوم آزادی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ایک سو ستر ممالک کی اس دنیا میں پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جس نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں غاصب قوتوں سے ٹکرا کر آزادی حاصل کی۔بحیثیت پاکستانی ہم سب کے لئے اِس دن کی اہمیت اسی طرح ہے جس طرح ایک مسلمان کےلئے عیدین کی ہوتی ہے۔اس دن کو پورے ملی جوش و جذبے کیساتھ منانا چاہیے تاکہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں ۔ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ وطن کسی نے تحفے میں نہیں دیا بلکہ ہمارے اسلاف نے اسکے لئے آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا۔ بابائے قوم محمد علی جناحؒ کے نحیف ونزار وجود نے کس طرح ایک جان لیوا بیماری کے چرکوں کو جگر پر سہہ کر ہندو اور انگریز سامراج کے گٹھ جوڑ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ،تاریخ کے اوراق اس سے بھرے پڑے ہیں۔جموں و کشمیر سے لیکر خیبر پاس تک پاکستان کا جغرافیائی وجود اور اسکی حدود خون کی لیکر سے کھینچی گئی تھی،یہ وجود آج ہمارے سامنے ایک نقشہ کی صورت موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی ماہرین کی کمیٹی کے ایک رکن اور انٹرنیشنل کارٹوگرافک ایسوسی ایشن کے سربراہ ٹم ٹرینر کے مطابق، نقشہ کوئی بھی ہو، اپنے اندر لیے ہوئے پیغام کی وجہ سے وہ بہت ہی طاقتور ہوتا ہے، اس لیے کہ جو کوئی بھی کوئی سرکاری نقشہ دیکھتا ہے،وہ یہی سوچتا ہے کہ اس نقشے میں دی گئی معلومات درست اور قابل بھروسہ ہی ہوں گی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جموں کشمیر پاکستان کے سیاسی وجود کا انمٹ حصہ ہے جس پر بھارت نے تقسیم ہند کے فوری بعد ساز باز کر کے قبضہ جما لیا تھا۔یہ تنازعہ تب سے حل طلب ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ نے دے رکھی ہے۔گزشتہ 75سالوں سے بھارت اس پہ قابض ہے بلکہ چار سال قبل اس نے اپنے ہی آئین کو پامال کرتے ہو ئے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت کا خاتمہ کردیا جو اقوام متحدہ کی قرار داوں کے سرا سر خلاف ورزی ہے ۔ 5اگست 2019کو بھارت نے مودی کی حکومت کے تحت یہ وارادت ڈالی اور مقبوضہ وادی کو ہندوستان کا حصہ بنا دیا۔بھارت کے اس ایکٹ پر پاکستان کےلئے ضروری تھا کہ وہ دنیا کو اپنے سیاسی نقشہ سے آگاہ کرے ۔ چنانچہ 4اگست 2020کوطویل عرصے کے بعد اس وقت کی حکومت نے ایک ایگزیکٹیو ایکٹ کے ذریعے ملک کا ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا۔سروئنگ اینڈ میپنگ ایکٹ 2014 کے سیکشن 6 (r) کے تحت سروے آف پاکستان کو وفاقی حکومت کی ہدایت پر مستند نقشہ شائع کرنے کا اختیار دیا گیا ۔ پاکستان کے نئے سیاسی نقشہ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے متعلق واضح کیا گیا کہ انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں جموں و کشمیراور ساتھ ہی سرخ سیاہی میں لکھا گیا کہ متنازع علاقے کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہونا ہے- علاوہ ازیں پاکستان نے اس نئے سیاسی نقشہ میں سر کریک، ریاست جونا گڑھ اور ریاست مناوادر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا ۔ جاری کردہ نیا سیاسی نقشہ، اس پختہ عزم کی مضبوطی سے تصدیق کرتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور رہے گا،پاکستان کے اس اقدام نے دنیا پر واضح کر دیا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
عالمی سطح پر نقشہ جات کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔کوئی بھی ریاست مستند نقشہ جات ہی کے ذریعے اپنے وجود کی تصدیق کرتی ہے۔پھراگر اس کا کوئی متنازعہ علاقہ کسی اور ملک کے زیر کنٹرول ہو تو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی وہ ریاست اس علاقے کواپنے نقشہ جات میں شامل کرتی ہے ۔پاکستان نے بھی اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے جموں و کشمیر پر اپنا دعویٰ قائم کیا جو اس کا حق ہے۔
بھارت کے ایک اور پڑوسی ملک نیپال نے بھی انہی دنوںاپنے ملک کا نیا نقشہ جاری کیا ۔بھارت کےساتھ کئی علاقوں پر نیپال کے تنازعات ہیں اسی لئے بھارتی قبضے میں ہونے کے باوجود نیپال نے لمپیادھورا، لیپولیخ اور کالا پانی کو اپنے نقشہ میں دکھایا۔ بھارت اپنی نئی نسل کو تنازعہ کشمیر سے بے خبر رکھتی ہے حتیٰ کہ بھارتی سکولوں میں کشمیر سے متعلق یا جغرافیے کی تعلیم کے دوران جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے، اس میں یہ بات بھی بالکل ہی نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے کئی باشندے تو دراصل اس ریاست کی آزادی اور خود مختاری کے خواہش مند بھی ہیں یا وہ پاکستان کےساتھ الحاق چاہتے ہیں۔اس طرح بہت سے بھارتی شہریوں کو یہ بات انگریزی زبان میں جغرافیے کی غیر ملکی کتابیں پڑھنے کے بعد پتا چلتی ہے کہ انہیں سکولوں میں بھارت کا جو نقشہ پڑھایا جاتا رہا ہے، وہ زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہی نہیں ہے لیکن پاکستان کا معاملہ مختلف ہے اور بچوں کو ابتدا ہی میں حقیقت سے روشناس کر دیا جاتا ہے بلکہ جموں کشمیر کے متنازعہ حصے کی غیر واضح حیثیت کے پیش نظر اس علاقے اور اسکی سرحدوں کی نشاندہی متنازعہ علاقے کے طور پر کی جاتی ہے ۔ ایک طویل عرصے کے بعدپاکستان نے ریاست کا ایک ایسا مستند نقشہ جاری کیا جو حقائق کی روشنی میں اسکی جغرافیائی حدبندی، بھارت کےساتھ متنازعہ علاقہ جات اور بھارت کے ناجائز اور غیر قانونی قبضے میں پاکستانی علاقوں کی نشاندہی کرتا ہے جن میںمقبوضہ کشمیر شامل ہے۔ تنازعہ کشمیر کاواحد حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ہی ممکن ہے۔ان میں کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کے بارے میں فیصلہ کریں مگر کشمیریوں کو ابھی تک ان کا یہ پیدائشی حق خودارادیت نہیں ملا ہے۔ آج ہم 76واںیوم آزادی منا رہے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ کشمیر کے بغیر تقسیم ہند کا ایجنڈا ابھی ادھورا ہے۔
کالم
قیام پاکستان اور اسکا سیاسی نقشہ
- by web desk
- اگست 14, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 99 Views
- 1 مہینہ ago