یونان کشتی حادثہ ایک انتہائی افسوس ناک اور دلخراش واقعہ ہے جس میں بہت سی ایسی قیمتی جانوں کا نقصان ہو اہے جو اس ملک کے ستائے ہوئے لوگ تھے۔غربت بے روزگاری کے ہاتھوں مجبورافراد تھے ۔ اپنے تاریک مستقبل کو سہانا بنانے کی خواہش میں من میں ہزاروں سپنے سجائے لوگ تھے ۔ اپنے گھر بار ،ماں باپ ،بیوی بچوں کے ٹوٹے خوابوں کو تکمیل دینے کے خواہشمند مسافر تھے۔ خواب خواب ہی رہا اور کشتی حادثہ میں سمندر میں ڈوب کر اللہ کوپیارے ہوگئے ۔ساحل سمندر پر لاشیں ہی لاشیں پڑی ہیں۔ یونان کے ساحل پر پڑی یہ پاکستانی نوجوانوں کی لاشیں دراصل پاکستانی حکمرانوں کی لاشیں ہیں ۔یہ طبقاتی نظام کی لاشیں ہیں۔ یہ عد ل و انصاف کی لاشیں ہیں ۔یہ وڈیرہ شاہی کی لاشیں ہیں۔ یہ ملک میں غیر مساویانہ رزق کی تقسیم کی لاشیں ہیں ۔یہ اشرافیہ کی لاشیں ہیں۔ یہ بوسیدہ نظام کی لاشیں ہیں۔ میرے پاس اس سانحہ کو بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں ۔سمجھ نہیں آتا کہ اس دکھ کی گھڑی کو کیسے بیان کروں ۔بس اِک درد سا سینے میں ہے کہ جو بڑھتا ہی جارہا ہے کہ کیا بات ہے کہ کیا بات ہے کہ ہمارے پاکستانیوں کی قسمت میں ڈوب کرمرنا ، بھوک سے مرنا یا اس ملک کے ارباب بست و کشاد کے ڈر سے مرناہی رہ گیا ہے اس کے علاو ہ اور کچھ بھی نہیں رہ گیاہے۔ کیا عجب بات ہے کہ یہاں کئی لوگ 15 روپے کی روٹی میسر نہ ہونے پر بھوک سے مر جاتے ہیں اور کسی کیلئے عیش و عشرت پر مبنی انواع و اقسام کے کھانوں کا ہی شمار نہیں ہے۔آپ کسی غریب کے گھر میں دیکھ لیجئے کیا حال ہے اور کسی امیر پرنظر ڈال لیں سب سامنے آجائے گا۔ مملکت خداداد پاکستان کی رعایا کے کھانے کی صورتحال ہی جانچ لیں کہ کیسے بھوک کے لالے پڑے ہوئے ہیںاور اس رعایا کے ٹیکسوں پر پلنے والے حکمرانوں کی صورتحال دیکھ لیں کہ کیسے کیسے عیش و عشرت کے سامان رکھے عجب نظارہ دے رہے ہیں کہ غریب بھوک ننگ سے خودکشی پر مجبور ہے ۔مائیں اپنے بچوں کے ساتھ گلے میں پھندا ڈال رہی ہیں اور یہاں ہماری پارلیمان اپنی عیاشیوں کے بِل پاس کروا رہے ہیں کہ جس ملک میں ایسا ہو ، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور یہ ہمارے ملک میں پہلی بار نہیں ہو رہا ہے ، پہلے بھی ایسے افسوسناک واقعات ہوتے رہے ہیں ۔ دو چار دن بات ہوئی ، اس کے بعد ہم سب پھر بھول گئے ، چندماہ بعد دوبارہ یہی واقعہ دوبارہ ہوتا ہے اور ہمارے ملک کے سینکڑوں نوجوانوں کی ڈیڈ باڈیزکبھی یونان تو کبھی لیبیاتو کبھی بارڈر کراسنگ پوائنٹ پر ۔ اپنے اچھے مستقبل اورگھروالوں کی بہتری کیلئے روزی کمانے نکلے لوگ یونہی ختم ہو جاتے ہیںمگر انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر دﺅر کے حکمران نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی کہ اپنے ہی ملک میں وسائل پیدا کئے جائیں تاکہ آئے دن ایسے واقعات سے ماﺅں کی گودیں نہ اجڑیں ، بیویوں کے سر کے تاج ، بہنوں کے بھائی ، روزی کمانے کی خاطر جان کی بازی نہ ہاریں،کسی بھی پارٹی نے اس ملک کی عوام بارے نہیں سوچا ہے ۔مہنگائی کا جن کسی سے کنٹرول نہیں ہوا ہے ۔اس جن نے بہت سے آباد گھر بربادکردئیے ،خوشیوں سے چہکتے گھروں کو ماتم کدہ بنادیا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پر ایسے بے حسی کو ختم کیا جائے اور کچھ ایسا کیا جائے کہ جس سے سینکروں نوجوان سمندربرد نہ ہوں۔افسوس کشتی حادثہ تو ہوا ، اس سے بڑا ایک اور حادثہ یہ ہوا کہ اس کشتی حادثہ پر لوگ ٹھہرے ہی نہیں اور پانچ امیر زادے افراد برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ ، پاکستان شہری شہزادہ داﺅد ، سلمان داﺅد ،سی او اوشین گیٹ اسٹاکٹن رش ، فرانسیسی ایکسپلورر پال ہنر ی بجائے اس کے کہ اس سانحہ کشتی حادثہ سے عبرت حاصل کرتے ،توبہ توبہ کرتے اس ناز ک اور تکلیف دہ وقت میں بھی تفریح اور ایڈونچر کی خواہش لئے کروڑوں روپے لگائے ، تباہ شدہ ٹاٹی ٹینک کی باقیات دیکھنے کیلئے جانے والی آبدوز ”ٹائٹن“ میں جا بیٹھے اور ڈوب گئے ۔اللہ کی شان دیکھیں کوئی پیسے دے کے ڈوب گئے اور کوئی پیسے کیلئے ڈوب گئے ۔