کالم

مقبوضہ کشمیرکی سیاسی تنظیم مسلم کانفرنس پر پابندی عائد

مقبوضہ جموں و کشمیرمیں مودی کی بھارتی حکومت نے اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور سیاسی تنظیم جموں و کشمیر مسلم کانفرنس پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی ہے۔جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو کالعدم تنظیم قرار دینے سے ایک دن قبل بھارتی وزارتِ داخلہ نے جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر عائد پابندی میں مزید پانچ سال کی توسیع کی تھی۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیری تنظیموں پر بھارتی حکومت کی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت بے گناہ نوجوانوں کے قتل ، گرفتاریوں اور بلا جواز پابندیوں سے انکے جذبہ آزادی کو ہرگز دبا نہیں سکتی ۔مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان نے بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں سرگرم مسلم کانفرنس جموں و کشمیر پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کی کشمیر کی قراردادوں کے منافی اوربھارت کی وحشیانہ سیاسی انتہا پسندی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کی اس تازہ ترین بھارتی خلاف ورزی پر سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کریں۔ سردار عتیق نے خبردار کیا کہ اس طرح کے فاشسٹ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت جان بوجھ کر خطے میں امن کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ جموں و کشمیر میں بھارت کا کوئی بھی جنگی اقدام پورے خطے کو جہنم کی آگ میں لپیٹ دے گا۔ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت بھارت کا حصہ نہیں بنتا۔ اس لئے وہ کشمیریوں کے سیاسی حقوق کو سلب نہیں کر سکتا۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارتی فوج کے محاصرے اور تلاشی آپریشنز جاری ہیں ۔تازہ کارروائیوں میں متعد د کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ۔ مقبوضہ کشمیرکے کئی علاقے مسلسل قابض بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں اور اس دورا ن لوگوں کو شدید سردی میں گھروں سے باہر نکال کر شناختی پریڈ کے علاوہ ظلم و تشدد کانشانہ بنایا جاتا ہے بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں محاصرے اور تلاشی کی جاری کارروائیوں کے دوران متعدد کشمیریوں کوگرفتار کرلیا۔ فوجیوں نے بارہمولہ، اسلام آباد، راجوری، بانڈی پورہ، کولگام اور کشتواڑ اضلاع میں تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران یہ گرفتاریاں کی ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے ایک کشمیری نوجوان پر وحشیانہ تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فوری نوٹس لے۔جبکہ سابق وزیر اعلی و نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاہے کہ کشمیری عوام ایک مشکل ترین اور نازک دور سے گزر رہے ہیں اور ایک غیر جمہوری نظام میں ان کے احساسات، جذبات اور امنگوں کو روندا جارہاہے۔
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو ریاست کی سب سے پرانی سیاسی تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔یہ تنظیم اکتوبر 1932 میں سرینگر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد مطلق العنان ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کی حکومت پر ریاست کے مسلمانوں کو حقوق کو بحال کرنے کے لیے دباو¿ ڈالنا تھا۔تاہم کشمیری رہنما شیخ محمد عبد اللہ نے 39-1938 میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لال نہرو کی سیاست سے متاثر ہو کر بعض ناقدین کے مطابق ان کی ایما پر سیکیولر پیرائے میں ڈالنے کے لیے اس کا نام بدل کر ’جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس‘ رکھ دیا تھا۔جموں و کشمیر کے ایک اور مقبول سیاسی رہنما چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفرنس کا احیا کیا اور 1947میں ریاست کی تقسیم کے بعد یہ جماعت پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیرمیں کئی مرتبہ برسرِ اقتدار رہی۔بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1989میں مسلح تحریکِ مزاحمت کا آغاز ہوا تو اس کے سیاسی منظر نامے پر متحرک نظر آنے والے فارسی زبان کے ایک سابق استاد پروفیسر عبد الغنی بٹ نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ زندہ کیا۔پروفیسر عبد الغنی بٹ کو چند سال قبل گورنر جگموہن ملہوترہ کی انتظامیہ نے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سرکاری نوکری سے برطرف کیا تھا۔بعد ازاں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد ک±ل جماعتی حریت کانفرنس کی ایک اہم اکائی بنی۔
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو کالعدم قرار دینے سے ایک دن پہلے بھارتی وزارتِ داخلہ نے جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر عائد پابندی میں مزید پانچ سال کی توسیع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فروری 2019 میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کو کالعدم تنظیم قرار دیتے ہوئے وزارتِ داخلہ نے کہا تھا کہ اس پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون کے تحت پابندی عائد کرنے کا فیصلہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں کیا گیا جس کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے