کالم

موجودہ ملکی صورت حال میں ہم کیا کریں

یہ تقسیم کتنی المناک ہے،پاکستان کے اکثر لیڈر،رسمی سیاستدان اپنے لئے آسان اور بہترین زندگی کا انتخاب کرتے ہیں اور عوام کےلئے مسائل ہی مسائل اور مشکلات ہی مشکلات ہیں ۔اگرموجودہ حالات میں یوں کہا جائے کہ انھوں نے اپنے لئے زندگی کا اور عوام کےلئے موت کا انتخاب کیا ہے۔کیا عجب تماشہ ہے جنھیں مرنا نہیں وہ للکارتے ہیں اور جو للکارتے نہیں وہ مارے جاتے ہیں ۔حقیقی آذادی کی اس جنگ کو جسے لڑنا یہ ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں۔جس کےلئے بعض اوقات انکی گرفتاری اور پکڑ دھکڑ تک کی نوبت آجاتی ہے ۔ایسے مواقع پہ ہونیوالے احتجاجی جلسے اور جلوسوں میں اول تو انکے بچے شریک نہیں ہوتے اوراگر ہوبھی جائیں تو انھیں ایک خراش تک نہیں آتی؟ بھلاکیوں؟ جبکہ غریبوں کے متعدد لخت جگرمارے جاتے ہیں۔یہ جب چاہیں جیل سے باہرآجائیں اور عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود جب چاہیں ملک سے باھر چلے جائیں اور غریب کارکن کی ہفتوں بلکہ مہینوں ضمانت نہیں ہوتی۔کتنے چالاک،شاطر اور ہوشیارہیں پاکستانی لیڈرز اور کتنے بھولے بادشاہ ہیں انکے فالورز (پیروکار)جو اس کھلے استحصال کو دیکھتے ہیں اسکے باوجود پھر بھی آنکھیں بند کرکے پوری وفاداری کے ساتھ انکے پیچھے چلتے رہتے ہیں ۔پاکستانی نوجوانوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اب مسائل بھلاو ان سیاستدانوں ، بیورو کریٹس ، ججز اور جرنیلوں کی طرح مواقع کو استعمال کرنا سیکھو،انکی نام نہاد آزادی اور حقوق طلبی کا جھنڈا مت اٹھاﺅبلکہ علم اورمحنت کے ذریعے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرو اس ظالم نظام سے شکایت اور ان مفاد پرست سیاستدانوں ، نفس پرست لیڈروں کے کہنے پر احتجاجی جلسے جلوسوں میں انکے اپنے بچوں کی طرح جانا چھوڑ دواور مثبت ذہن کے تحت اپناکام کرو،اس جابر بلکہ شاطر نظام میں حالات سے لڑنے کی حماقت نہ کرو بلکہ ان سیاستدانوں اور لیڈروں کی طرح حالات سے مطابقت کرنا سیکھو اور اپنے مستقبل کو روشن کرنے کی خود جستجو کیجئے۔حکمرانوں کی نالائقیوں،اشرافیہ کی بد قماشیوں اور انکے سہولت کاروں کی شاطرانہ چالوں کے باوجود ابھی بھی ملک کے اندرکچھ غیرموافق اور کچھ موافق پہلو ہیں تم غیرموافق پہلو کو نظر انداز کرکے موافق پہلوﺅں پہ ساری توجہ مرکوز کردو ،ان نام نہاد”ہردلعزیز”لیڈروں اور سیاستدانوں کی طرح وسیع ترملکی مفاد(اصل میں انکے ذاتی مفادات)کےلئے اپنے وطن عزیز کے اداروں سے ٹکراو کی بجائے ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اختیار کرو۔اب اس ظالم وجابر نظام کے خاتمے کےلئے اسکے پاسداروںبلکہ پہرے داروں سے جان چھڑانا ہوگی۔اس کے لئے اب احتجاج نہیں اعلیٰ ادراک اوربہتر تدبیر کی ضرورت ہے ۔ جوش سے نہیں ہوش سے کام لیجئے۔اب ان سے بدلہ ملکی املاک جلاکرنہیں آنے والے الیکشن میں پاس بٹھا کرلینا ہوگا۔انکی شاطرانہ چالوں کے مقابلے میں بہترین تدبیرکی ضرورت ہے۔جب یہ ووٹ مانگنے آئیں توبس اتنا کہنا کہ بس اب تم بھی نہ گھبرانا۔بس تھوڑی سی آزمائش ھے ،جیسے تم ہمارے لئے مشکل فیصلے کرتے تھے اب اپنے لئے اور اپنے ملک کےلئے ہم نے بھی کچھ مشکل فیصلے کرلئے ہیں اب تم صبر کرو،اب تم بھی نہ گھبرانا،ملکی مفاد کانام لیکر سخت فیصلوں کا بھاشن دینے والے لیڈرو اور انکے حواریوں کو یہ بتاو کیا وجہ ہے کہ ہرطرح کے سیاسی معاشی بحران , اور 70 سالوں سے شدید ملکی حالات خراب ہونے کے باوجود تمھارے بچوں میں سے کوئی ڈاکٹر, کوئی انجینئر اور کوئی کامیاب بزنس ٹائیکون ہے ۔آدھے سے زیادہ ٹبر بیرون ملک مقیم ہے کیوں؟ اور کیسے؟ جبکہ سارے مسائل ہمارے لئے ہی کیوں؟ آٹے کی لائنون ،پاسپورٹ ,ویزہ آفس ،فنگر پرنٹ ، نادارا کے دفاتراور بنکوں کی لمبی لائنوں میں کبھی تمہارے بچوں ، بھتیجوں، رشتہ داروں کو رلتے اور ذلیل ہوتے نہیں دیکھا ۔ انھیں کہناجناب اپنا لائف اسٹائل ہمارے جیسا کرلو یا ہمارالائف اسٹائل اپنے لائف اسٹائل کاعشرعشیر ہی کروا دو تو ووٹ لے لو ورنہ چائے پانی پیو اورنیویں نیویں ہوکر پتلی گلی سے نکلو ۔ صرف 50فیصدعوام ہی اس "نوری نسخے”پہ عمل پیرا ہوکر دیکھ لے یقین جانئے جو کام گزشتہ 76سالوں میں نہیں ہوا ان شااللہ ایک سال میں ہی ہوجائے گا۔اگر اسی طرح کا پاکستان بنانا تھاتو پھر قیام پاکستان کےلئے دس لاکھ انسانی جانوں کی قربانی کے ترددکی کیا ضرورت تھی ۔بہرحال ان بد دیانت ، نااہل ، مفاد پرست حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کئے بغیرقوم کی حالت نہیں بدل سکتی بلکہ ممکن ہے انکے رحم وکرم پہ رہے تو جلد ہی نوبت کپڑے اترنے تک پہنچ جائے ۔ ملک میں مہنگائی، لاقانونیت، جلاﺅ گھیراﺅ، گولی لاٹھی کا عفریت کھلے عام ناچ رہا ہے،گھروں کے گھراجاڑرہا ہے۔اس ملک میں وسائل کی کمی نہیں بس وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم سے ملک روزبروز بحرانوں کا شکار ہے,اس وقت ملک وقوم کو بہت سے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نااہل اور مفاد پرست حکمران اور اس قماش کی قیادت ہے ۔ ان سے جان چھڑا لینے سے ہی ہماری جان چھوٹے گی۔اسٹیبلشمنٹ ہماری ہے ۔ ادارے ہمارے ہیں،ان کا احترام ضروری ہے لیکن ادارے اس بات پہ بجی دھیان دیں کہ اپنی کمزور عوام کو جہاں بیرونی دشمنوں بچانا ضروری ہے وہاں ان ظالم، جابر، نالائق اور مفاد پرست حکمرانوں سے بھی بچانے کی سبیل کریں۔عوام تو آپ سے پیار کرتی ہے آپ بھی اس پیار کی لاج نبھائیں ۔ان سیاستدانوں کو واضح پیغام دیں کہ یہ غریب عوام کی ڈھب سے خدمت کریں ۔ کیا پاکستان صرف اشرافیہ کے خاندانوں کی جنت کےلئے بنا تھا یا غریب عوام کا بھی اس میں کوئی حصہ ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے