کالم

مودی کو کرناٹک میں شکست

riaz chu

بھارتی ریاست کرناٹک میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کانگریس نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شکست دے کر جنوبی بھارت کی اہم ریاست مودی سے چھین لی۔10 مئی کو ہونے والے کرناٹک کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کوبدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق کرناٹک اسمبلی کی 224 نشستوں میں سے 136 پر کانگریس نے کامیابی حاصل کرکے حکومت بنانے کیلئے بھی اکثریت حاصل کرلی ہے۔ کرناٹک میں حکومت بنانے کیلئے 113 ارکان کی حمایت درکار ہے۔بھارتی جنتا پارٹی 64 اور جنتا دل پارٹی 20 نشستیں حاصل کرسکیں۔ انتخابات میں بی جے پی کی ریاستی کابینہ کے 11 ارکان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ریاستی وزیراعلیٰ باسوراج بومئی مستعفی ہوگئے۔ ان انتخابی نتائج کے مطابق کانگریس نے قومی انتخابات سے ایک سال قبل وزیراعظم نریندرمودی کی حکمراں جماعت بھارت جنتا پارٹی (بی جے پی) کو عبرت ناک شکست سے دوچارکیا ہے ۔ یہ واحد جنوبی ریاست ہے جہاں ہندو قوم پرست گروپ برسراقتدار ہے۔کرناٹک کی آبادی چھ کروڑسے زیادہ ہے اوریہ قریباً برطانیہ کی آبادی کے برابرہے۔ اس کا دارالحکومت بنگلور(بنگلورو)بھارت کا ٹیکنالوجی مرکز ہے ۔ کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی (کے پی سی سی) کے دفترمیں اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی شاندار جیت کے بعد جشن منایا گیا ہے۔ صدر ملکارجن کھرگے، ریاست میں پارٹی سربراہ ڈی کے شیوکمار اورسابق وزیراعلیٰ سدارامیا سمیت کانگریس کے سینئر رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بی جے پی ’کانگریس مکت بھارت‘ بنانا چاہتی تھی لیکن آج حقیقت میں جنوبی بھارت بی جے پی سے پاک ہوگیا ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کے موجودہ وزیراعلیٰ بسوراج بومئی نے انتخابی نتائج کے بعد کہا کہ ہمارے وزیراعظم سے لے کر کارکنوں تک ہرایک کی جانب سے کی جانے والی بہت سی کوششوں کے باوجود ہم اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔انھوں نے ریاستی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی ہے اورکہا ہے کہ پارٹی کی کارکردگی معیار کے مطابق نہیں تھی۔بی جے پی نے کرناٹک میں ایک بڑی انتخابی مہم چلائی تھی اورمودی نے خود ہندوسیاست کے اپنے مضبوط برانڈ کو فروغ دینے کےلئے ریاست کا دورہ کیا تھا۔اپنی ایک ریلی میں مودی نے ایک نئی فلم کی تعریف کی جس میں اسلام قبول کرنے اورداعش میں شامل ہونے والی ہندوخواتین کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیاتھا۔مودی نے بندردیوتا ہنومان کو خراج عقیدت پیش کرکے ہندواکثریتی رائے دہندگان کو راغب کرنے کی بھی کوشش کی تھی ۔کانگریس نے اس ریاست میں سیکولرازم ، غریبوں کومفت بجلی اور چاول دینے اور بی جے پی کی بدعنوانی کے الزامات پر سخت مہم چلائی تھی۔پارٹی لیڈر راہول گاندھی نے دہلی میں کانگریس ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کا بازار بند کر دیا گیا ہے اور محبت کی دکانیں کھول دی گئی ہیں۔ایک ایسے موقع پر جب اگلے سال پورے ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں ، کرناٹک میں بی جے پی کی شکست بھارتی عوام کے جارحانہ مزاج کا پتہ دے رہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ نتائج مودی حکومت کی ناقص کارکردگی اور حکومت سے عوام کی ناراضگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ ان نتائج کے بعد توظاہراً راہول گاندھی کی نوجوان قیادت میں کانگریس ایک مرتبہ پھر بھارت پر راج کرتی نظر آرہی ہے۔ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست پر کانگریس کے کارکن خوشی سے نہال ہیں۔گو کہ وزیراعظم نریندر مودی نے شکست کو تسلیم کر لیاہے مگر ان کی خاموشی ان کے اندر کے خوف کو ظاہر کر رہی ہے۔یہ مودی کو واضح پیغام ہے کہ عوام خوش نہیں اور یہ تبدیلی کا وقت ہے۔ بھارتی اور بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاستی اسمبلی کے یہ ہولناک نتائج ملک کی موجودہ سیاست کے پس منظر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ انتخابی نتائج پارلیمانی انتخابات میں اثرانداز ہوں گے۔ ان نتائج کے بعد ملک میں پارلیمانی انتخابات تک سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی او بی جے پی کی قیادت کو نئی انتخابی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔اپنی حکومت کے دوران بڑے بڑے دعوے کرنے والے نریندر مودی اور ان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تمام تدبیریں الٹی پڑگئیں اور ان کی انتہا پسندی ریاستی انتخابات میں پارٹی کو لے ڈوبی ۔مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی، کسانوں اور بیروزگار نوجوانوں کے مسائل مودی کو لے بیٹھے۔ اس کے علاوہ مودی حکومت کی انتہا پسندی اور اقلیتوں سے ناروا سلوک بھی شکست کا باعث بنا۔ اسی طرح بی جے پی کی طرف سے مذہبی کارڈ کھیلنے کی حکمت عملی بھی شکست کا باعث بنی۔ بی جے پی کی ہندو توا کی سیاست اور وہ بھی بھارت جیسے سیکولر معاشرہ میں ، اس سے بعض انتہاپسند گروہ تو ضرور متاثر ہوئے مگر بھارت میں بسنے والی دیگر اقلیتیں اور خود نچلی ذات کے ہندو دلتوں کو یہ مذہبی کارڈ ضرور جتلا گیا کہ آئندہ برسراقتدار آنے پر بی جے پی ان اقلیتوں سے کیسا سلوک کرے گی۔ ا س انتخاب کے بعد بی جے پی اس بات کی تشہیر کر رہی ہے کہ عوام میں جو بھی ناراضگی ہے وہ ریاستی قیادت اور حکومت سے ہے لیکن عوام وزیر اعظم نریند رمودی کو چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہو ئی ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی وہاں کے عوام نے بھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔ گویا عوام مودی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri