سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ 1903ءبمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔ راقم الحروف کو دسمبر 1988 میں پاکستان ٹائمز کی جانب سے امریکی صدارتی انتخاب کی کوریج کےلئے نیویارک جانے کااتفاق ہوا۔وہاں سے مجھے کینیڈا جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے نیویارک سے ٹورانٹو جانے والی ٹرین پر سفر کیا۔ اسی روٹ پر امریکی شہر بیفلو بھی آتا ہے ۔ بیفلو مجھے یوں یاد آیا کہ یہاں بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم و مغفورنے زندگی کے آخری ایام گذارے۔ ان کی رحلت بھی بیفلوکے ہسپتال میں ہی ہوئی تھی۔ ان کی امریکہ روانگی سے قبل میری ان سے لاہور میں محمد عقیل صدیقی مرحوم اور ملک وزیر احمد غازی ایڈووکیٹ مرحوم کے ہمراہ ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے فرمایا کہ میرا بیٹا علاج کےلئے مجھے امریکہ بلانے پر مصر ہے مگر میں نہیں جانا چاہتا۔ بعد میں وہ اپنے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق کے اصرار پر امریکہ چلے گئے تھے۔ دوران علالت ہی مولانا مودودی ؒ 22 ستمبر 1979 کو امریکہ میں وفات پا گئے تھے۔ ڈاکٹر احمد فاروق نے بفیلو سے نیویارک کے لیے ان کی میت کو چارٹرڈ طیارے کے ذریعے منتقل کیا۔ مولاناؒ کے اہل خانہ بھی ان کی میت کے ساتھ نیویارک پہنچے۔ نیو یارک ائیر پورٹ پر ایک بڑی تعداد میں مسلمان جمع ہوئے اور مولانا کی نماز جنازہ ادا کی ۔وہاں جنازہ پڑھنے والے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ائیر پورٹ کے جس ایریا میں نماز ادا کی گئی وہ جگہ ناکافی ہوتی گئی لوگ بڑھتے گئے اس طرح چھ مرتبہ نماز ادا کی گئی۔ اس کے بعد وہاں پر لکڑی کا تابوت جس میں میت لائی گئی تھی ائر لائن والوں نے اس کو اپنے کارگو کیبن کے مطابق دوبارہ بنانے کا کہا چنانچہ وہاں تابوت نیا بنوانا پڑا اس کے بعد میت کو لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ پر لایا گیا جہاں پر پورے یورپ سے ہزاروں مسلمان مولانا کی نماز جنازہ کےلئے جمع تھے چنانچہ وہاں نماز جنازہ ادا کی گئی اس کے بعد لندن سے کراچی لایا گیا کراچی میں میاں طفیل محمد صاحب کی امامت میں لاکھوں افراد نے نماز جنازہ ادا کی کراچی سے پھر میت کو 24 ستمبر 1979 کو عصر کے وقت لاہور لایا گیا اور مولانا کی رہائش گاہ اچھرہ منتقل کردیا گیا اور نماز عشاء سے اگلے دن صبح دس بجے تک لوگ لائنوں میں لگ کر مولانا کی آخری زیارت کرتے رہے ۔کئی لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ صبح تک ان کی باری نہیں آسکی۔ صبح دس بجے 25 ستمبر کو مولانا کے جسد خاکی کو قذافی سٹیڈیم لے جایا گیا جہاں کم وبیش پچیس لاکھ افراد نے علامہ یوسف القرضاوی رحمة اللہ علیہ کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی اور پھر ظہر کے بعد مولانا مودودی ذیلدار پارک اچھرہ میں ان کی رہائش گاہ کے لان میں سپرد خاک کردیا گیا اللہ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر ۔ مولاناابو الاعلی مودودی ؒنے تفہیم القرآن کے نام سے قرآن مجید کی تفسیرتحریر کی۔ قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر پر ا±ردو زبان میں اتنا کام ہو چکا تھا کہ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف برکت اور سعادت کے لیے تفہیم القرآن تحریر نہیں کیا بلکہ انکا حقیقی مقصد یہ تھا کہ عام تعلیم یافتہ لوگوں تک روحِ قرآن اور اس کتابِ عظیم کا حقیقی مدعا پہنچ سکے۔ اس کے لیے انہوں نے لفظی ترجمہ کی بجائے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا تاکہ ادب کی تند وتیز اسپرٹ جو قرآن کی اصل عربی عبارت میں بھری ہوئی ہے وہ متاثر نہ ہو کیونکہ یہی تو وہ چیز ہے جوسنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی ہے۔ جس کی قوت ِتاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالفین تک مانتے تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا وہ بالآخر نقدِ دل ہار بیٹھے گا۔ اور یہ سارے فوائد لفظی ترجمہ کے ذریعہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ مولانا نے تفہیم القرآن میں جس انداز کو اپنایا اس نے لاکھوں دلوں کو متاثر کیا خصوصاً نوجوان طبقے میں قرآن فہمی اور اس پر عمل کرنے کا احساس تیزی سے ابھرا۔ تفہیم القرآن چھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ (محرم 1361ھ ) فروری 1942 ءمیں تفہیم القرآن لکھنے کے کام کا آغاز ہوا۔ پانچ سال سے زیادہ مدت تک اس کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ سورة یوسف کے آخر تک ترجمانی اور تفہیم تیار ہو گئی۔ اس کے بعد حالات کی بنا پر مولانا کو کچھ لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ بعد ازاں 1948ءمیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے داخل ِ زنداں کر دیا گیا۔ جہاں انہیں تفہیم القرآن کے مواد پر کام کرنے کا خاصہ موقع ملا۔ 24 ربیع الثانی 1392ھ بمطابق 7 جون1972ءکوو تفہیم القرآن تیس سال چار مہینے کے عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس کے متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام علمی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی شخصیت اور فکر و فلسفہ کے حوالے سے مختلف یونیورسٹیوں میں مقالات لکھے گئے جس سے نہ صرف ان پر کیے گئے کام سے آگاہی ہوگی بلکہ ان کی علمی خدمات کو سامنے لانے کےلئے اہلِِ علم و فضل کو مزید موضوعات سامنے لانے اور طلبہ سے کام کروانے کےلئے راہ ہموار ہوگی۔