کالم

نور احمد اور منظور عالم بھی چلے گئے

rohail akbar

پچھلے چند دنوں میں دو افراد اللہ کو پیارے ہوگئے ان میں ایک مدینہ منورہ کے حاجی نوراحمد اور دوسرے مکہ کالونی لاہور کے رہائشی حاجی منظورعالم ہیں یہ دونوں افراد حقیقی معنوں میں عاشق رسول اور مثالی پیار کرنے والی شخصیت اور لوگوں کی خدمت کرنے والے ایسے افراد تھے کہ جو ان سے ایک بار مل لے وہ انہی کا ہو کر رہ جاتا تھا پچھلے سال میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے جب سعودی عرب گیا تو وہاں جدہ میں رہائش پذیر میرے قریبی عزیز اور دوست طلعت محمود نے مکہ میں حاجی اللہ یار کے گھر اور مدینہ میں حاجی نور احمد کے ہوٹل میں میری رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کروایا جدہ میں میں اسکے گھر ہی رہا حاجی اللہ یار بھی خوبصورت انسان ہیں مکہ میں اپنا ذاتی کام کرتے ہیں کھانے پینے کے خوب شوقین ہر ہفتے چھٹی والے دن پائے بناتے ہیں اور پھر دوستوں کی دعوت کرتے ہیں مجال ہے کہ وہ اپنے پاس آنے والے کسی بھی مہمان کو ایک ریال بھی خرچ کرنے دیتے ہوں میں ایک دن چائے بنانے کے لئے دودھ کا ڈبہ باہر سے لے گیا جس پر انہوں نے اس ڈبے کے پیسے زبردستی مجھے واپس کردیے میں نے انکار کیا تو کہنے لگے بھائی اپنا سامان اٹھاﺅ پھر کسی اور جگہ چلے جاﺅ جس پر میں نے ان سے پیسے واپس لے لیے اللہ یار ایسا خوش اخلاق اور پیار کرنے والا انسان ہے کہ ایک بار ملنے کے بعد بار بار ان سے ملنے کو دل کرتا ہے اسی دوران جدہ سے طلعت محمود کا چکر بھی لگتا رہا اور ہم طائف بھی گھوم پھر آئے طلعت محمود بورے والا اور گگو منڈی کا رہائشی ہے عرصہ دراز سے سعودی رائل ایئر پورٹ پر کپتان ہے وہ بھی سعودی عرب میںایسی شخصیت ہے کہ ہر پاکستانی کی جان ہے بور سے بور طبیعت کا مالک شخص بھی اسکے پاس تھوڑی بیٹھ جائے تو وہ بھی خوش گفتار بن جاتا ہے اسکی باتوں کا جادو ایسا ہے کہ انسان اپنی پریشانی تک بھول جاتا ہے زندہ دل اور دلیر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پیار کرنے والا بھی ہے مکہ میں تقریبا 14دن گزارنے کے بعدمیں طلعت کے ساتھ جدہ اسکے گھر آگیا وہاں چند گزارنے کے بعد اس نے مجھے مکہ میں ایک ایسی شخصیت سے ملوایا جو سب کچھ ہونے کے باوجود اللہ کا ایسا نیک اور سادہ بندہ تھا سعودی عرب میںکوئی بھی غیر ملکی شہری اپنے نام سے کاروبار نہیںکرسکتا لیکن نور احمد اللہ کاایسا خاص بندہ تھا کہ پاکستانی ،ہندوستانی ،لبنانی ،مصری اور دنا بھر سے آئے لوگ اسکے گرویدہ تو تھے ہی ساتھ میں سعودی بھی اس سے پیار کرتے تھے اور وہ واحد شخص تھا جس نے اپنے نام سے مطعم نور ہوٹل بنا رکھا تھا روضہ رسول سے چند منٹ پیدل مسافت پر انکا ہوٹل تھا طلعت محمود نے جب میری حاجی صاحب سے ملاقات کروائی تو انکا اخلاق اور پیار دیکھنے والا تھا طلعت مجھے حاجی صاحب کے ہوٹل چھوڑ کر واپس چلا گیا اور میں پھر 14دن مطعم النور میں حاجی نور احمد کا مہمان رہا نیچے ہوٹل اور اوپر کمرہ تھا جہاں میرے رہنے کا انتظام تھا میں جب بھی نیچے اترتا حاجی صاحب زبردستی کچھ نہ کچھ کھلا دیتے جبکہ چائے کا کپ تو ہر آدھے گھنٹے بعد مجھے دیدیا جاتا پچھلے دنوں طلعت محمود نے بتایا کہ حاجی نور صاحب فوت ہوگئے ایسے خوبصورت اور ہمدرد انسان کو موت بھی جب گلے لگاتی ہے تو فخر محسوس کرتی ہوگی کہ میں ایک ایسے نیک اور پیارے انسان کو اللہ کے حضور لیکر جارہی ہوں جس نے روضہ رسول کے سامنے بیٹھ کر اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کی اب انکا بیٹا زبیر اپنے باپ کی جگہ لوگوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہے اور ابھی چند دن پہلے حاجی منظور عالم بھی اللہ کو پیارے ہوگئے جو حب رسول سے لبریزایسا شخص تھا جو زبان پر نام محمد آتے ہی تڑپ اٹھتا تھا کہ کب مدینے سے بلاوا آئے اور وہ ننگے پاﺅں دوڑ لگا دے حاجی منظور مکہ کالونی لاہور کا رہنے والا تھا جو آج سے چند دن پہلے اللہ کے حضور پیش ہوگئے میں جب سعودی عرب میں تھا تو روضہ رسول سے انہیں ویڈیو کال کی جب انکی نظر سبز گبند پر گئی تو پھر آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی اپنی کپکپاتی آواز میں سلام عقید پیش کرنا شروع کردیا حاجی صاحب اللہ کے ایسے نیک بندے تھے کہ جو انکے پاس ایک مرتبہ آگیا پھر وہ انہی کا ہو کررہ گیا دوستوں پر جان نچھاور کرنے والے حاجی منظور صاحب سے میری ملاقات آج سے تقریبا 25سال پہلے اس وقت ہوئی جب میں لاہور آیا تھا میں میرے پاس رہنے کوکوئی خاص جگہ نہیں ہوتی تھی ویسے تو رشتہ دار بہت زیادہ تھے میرے نانا کے بھائی چوہدری اسلم صاحب اس وقت لاہور میں رینجر کے ونگ کمانڈر ہوا کرتے تھے میری والدہ محترمہ کے فرسٹ کزن میاں قیوم صاحب ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ جو ریٹائر منٹ کے بعد اینٹی نارکوٹکس کے سربراہ لگ چکے تھے اورتو اور بہت ہی ہمدرد ،مخلص اور پیار کرنے والے اس وقت ڈی آئی جی ٹریفک پنجاب شیخ اسرار احمد بھی لاہور میں ہی تھے اور میں ایک نیوز ایجنسی میںبطور رپورٹر کام کرتا تھا سارا دن کام کرنے کے بعدجب رات کو حاجی صاحب کے گھر پہنچتا تو وہ خندہ پیشانی سے استقبال کرتے کھانا کھلاتے اور پھر بیٹھک میں میرے سونے کا انتظام کرتے ان سے میری ملاقات ہڑپہ کے نزدیک ایک گاﺅں میں رہنے والے شمشاد رسول نامی شخص نے کروائی جواپنے آپ کو صحافی کہلاتا تھا اسکی وجہ سے اسکے دوست بھی ہمیشہ اس سے تنگ ہی رہے آئے روز کسی نہ کسی کے خلاف درخواست دینا اسکا معمول تھا اسی چکر میں ایک بار سیکریٹریٹ میں جعل سازی کرنے پر اسکے خلاف مقدمہ بھی درج ہواجسے پیر عرفان شاہ نے بہت کوششوں سے ختم کروایا خیر میں بات کررہا تھا حاجی منظور صاحب کی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے انہوں نے اپنے گھر میں دیسی ادویات ،مختلف اقسام کے تیل اور خالص بادام روغن بھی رکھا ہوتا تھا جسے وہ ہر آنے والے دوست کو بطور تحفہ پیش کرتے اسکے ساتھ ساتھ محلے کے جتنے مریض لوگ ہوتے وہ انکی اپنی بنائی ہوئی ادویات سے مفت علاج کرتے محلے بھر میں حاجی صاحب کے گھر کی بیٹھک کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا تھا وہ علاقے کی ایسی ہر دل عزیز شخصیت تھے کہ بچے بھی انکے پاس آکر کھیلتے ،جوان بھی آکر انہیں اپنے دل کی باتیں بتاتے اور بزرگ تو انکے گرویدہ تھے باتوں کا خزانہ تھا انکے پاس ہر کسی کی دلجوئی کرنا انکا پسندیدہ مشغلہ تھا عاشق رسول ایسے تھے کہ انکی گفتگومیں آپ ﷺ کی محبت کا رنگ جھلکتا تھا میں جب کبھی انکے پاس جاتا تو دنیا بھر کی باتوں کے بعد ہم دونوں اس بات پر اپنی بات ختم کرتے کہ اب اکھٹے سعودی عرب جانا ہے انکی ہر وقت کوشش اور خواہش ہوتی تھی کہ وہ روضہ رسول پہنچ جائیں اور پھر اپنی باقی زندگی سبز گنبد کے سائے تلے گزار دیں افسوس انکی یہ خواہش تو پوری نہیں ہوئی لیکن مجھے امید ہے کہ جتنے سکون سے انہوں نے موت کو گلے لگایایقینا اس وقت بھی انکی نظروں کے سامنے سبز گنبد ہی ہوگا انکی تربیت کا رنگ انکی اولاد میں بھی جھلکتا ہے وہی پیار ،محبت ،اخلاق اور اخلاص جو حاجی صاحب کی علامت تھی وہی انکے بچوں کی نشانی بن چکا ہے خاص کر انکے بڑے بیٹے ملک شفیق کے اندر ملنساری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ حاجی نور احمد اور حاجی منظور عالم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri