ویسے یہ بات بالکل درست ہے کہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو بجلی کی بڑھ چکی اور ہر لحظہ بڑھتی جا رہی قیمتوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ستم ظریف خلاف روایت نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو مہنگائی کے معاملے میں بے قصور خیال کرتے ہوئے ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ نگران وزیراعظم مسلسل عالم حیرت و استعجاب میں غرق ہیں ، ان کے ملاحظے اور مشاہدے میں عجیب عجیب قسم کی حقیقتیں آ رہی ہیں۔انہوں نے بجلی کے بلوں کے حوالے سے ملک بھر میں عوام کے غصے اور بڑھتے ہوئے اشتعال کو کم کرنے اور عوام کےلیے بطور وزیر اعظم کسی رعایت کا اعلان کرنے کے لیے ایک اہم اجلاس طلب کیا ۔ یہ اجلاس دو گھنٹے سے زائد جاری رہا۔اس اجلاس میں وزارت بجلی نے اپنی پرانی اور آزمودہ مہارتوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کو بجلی کی ترسیل اور نرخوں کے معاملے پر بریفنگ دینے کے بعد وزیراعظم کو اطلاع دی کہ بھائی جان بجلی کی قیمت کا تعین تو نیپرا کرتا ہے اور بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل کنزیومرپرائس انڈیکس کے تحت ہوتا ہے ۔ مطلب یہ کہ آپ نے یہ اجلاس بلایا کیوں ہے ۔ باخبرذرائع کے مطابق نگران وزیر اعظم نے مفت بجلی کی فراہمی اور بجلی کی چوری روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت کردی۔اس سب کا مطلب صرف یہ ہے کہ؛ بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے سے پریشان اور مشتعل عوام کو فوری طور پر کوئی رعایت دینے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا، بجلی کی قیمتوں کے تعین اور بلوں کی تصحیح پر کل دوبارہ اجلاس اجلاس کھیلا جائے گا۔ستم ظریف انوار الحق کاکڑ کو بے خبر اور بے قصور سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ اس شدت کی اشتعال انگیز مہنگائی کرنے سے پہلے وزیر اعظم سے پوچھا کس نے تھا ؟ ظاہر ہے کسی نے بھی نہیں۔ وہ جو میر صاحب نے کہہ رکھا ہے تو ، اس کا اشارہ شاید وزیراعظم انور الحق کاکڑ کی طرف ہی تھا ،یعنی:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ستم ظریف کی پختہ رائے ہے کہ جب تک عامتہ الناس کے انگ انگ میں بجلی نہیں بھر جاتی،مفت خور اور ناکارہ حکومتوں کی لوٹ مار برابر جاری رہے گی۔ وہ کہتا ہے کہ ؛پاکستانی شہریوں کی قوت برداشت دنیا بھر میں ایک مثال بنتی جارہی ہے۔احساس زیاں سے بے نیاز یہ شہری ہر حال میں راضی بہ رضا رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔دوسری طرف ساحران ریاست و سیاست یہ راز اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ ان کو ابتلا میں رکھ کر ہی مغلوب رکھا جا سکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہیں زندگی کا کوئی سکھ میسر آگیا تو پھر یہ مزید حقوق اور مراعات کا مطالبہ کریں گے ۔تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ؛
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
اس کام کےلئے یار لوگوں نے خاص طرح کا عملہ بھاری معاوضے پر رکھا ہوا ہے ،جو یہ ذمہ داری مسلسل نبھا بھی رہا ہے ۔پر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کی طرف سے نہایت بےشرمی سے کی جانے والی مسلسل مہنگائی نے عامتہ الناس کو انگڑائی لینے پر آمادہ کر دیا ہے۔پاکستانی بجلی ،گیس اور پٹرول کی بے قابو قیمتوں سے پریشان اور مشتعل ہیں ۔دراصل بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمت حکومت کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے۔یہ تین ایسے بٹن ہیں ،جن کو دباتے ہی حکومت کی جیب میں اربوں روپے جمع ہو جاتے ہیں۔حکومت اپنا سائز کم کرنے، اپنی مراعات سے دستبردار ہونے اور اپنا معیار زندگی عام پاکستانی کی سطح پر لانے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے قرض کی قسط ملنے پر پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز کو کروڑوں روپے کی گاڑیاں خرید کر دی گئی تھیں۔عامتہ الناس کو عدم تشدد کی بنیاد پر فوری طور پر احتجاج کا سلسلہ شروع کرنا چاہیئے اور بصد احترام ہر قسم کے بلوں کی ادائیگی سے صاف انکار کر دینا چاہئے۔ ملک میں پاور سپلائی کے حوالے سے اہم ترین ضرورت اس بات کی ہے کہ بجلی کا سینٹرل ڈسٹریبیوشن سسٹم ختم کیا جائے۔یہ بدنام زمانہ لائن لاسز اسی سینٹرل ڈسٹریبیوشن سسٹم کا نتیجہ ہیں۔ان لائن لاسز کا بل عام صارف کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ لائن لاسز کا تصور ہی خرابی ، چور بازاری اور کرپشن کی جڑ ہے۔آخر دنیا بھر میں لوکل ڈسٹریبیوشن کی جاتی ہے ،تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ وجہ شاید یہ ہے کہ بجلی حکومت کے لیے آمدنی کا بہت بڑا اور بنیادی ذریعہ ہے۔
(……..جاری ہے)
یہ ایک ایسا پاور بٹن ہے کہ جسے دباتے ہی خزانے میں کروڑوں روپے حاضر ہو جاتے ہین۔ اچھا لوکل ڈسٹریبیوشن میں لائن لاسز زیرو پرسنٹ ہوتے ہیں۔فرض کریں لاہور کو چار زون میں تقسیم کرکے لوکل پاورڈسٹریبیوٹرز جن میں پبلک اور پرائیویٹ دونوں شامل ہوں اپنے زون کو پاور سپلائی دیں۔بجلی کے یونٹس کی قیمت مقابلے کی ہو۔تو بتایئے کوئی ایک یونٹ کے ضائع ہونے کا امکان باقی رہے گا؟
امریکہ میں تو یوں ہی ہوتا ہے۔حکومت کا بنیادی مقصد صارفین کو بلا رکاوٹ اور مناسب قیمت پر بجلی مہیا کرنا ہے اور بس جبکہ پاکستان میں بجلی کو کما پوت بنا رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک تشویشناک حقیقت ہے کہ حکومت اپنا حجم کسی صورت کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ وزرا اور محکموں کی تعداد محدود کی جائے۔جیسا کہ دفاع، خارجہ، داخلہ اور انڈسٹری۔باقی ایریاز میں ڈویژن بنا دیئے جائیں۔ بیوروکریسی کا حجم بھی بہت کم کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہت سارے ایسے ادارے بھی ختم کرنے ہوں گے ،جن کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں اور جن کے بغیر دنیا کا ہر کام چل رہا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر وزیراعظم معائنہ کمیشن اسی طرح کے ان گنت ادارے ، کمیشن اور ڈویژن ہیں ،جن کے بغیر بھی کام چل جاتا ہے۔وفاقی محکموں کے پاس اربوں روپے کی پول میں پڑی گاڑیاں فوری طور پر نیلام کر دینی چاہئے۔ایک ایک وزارت میں گاڑیوں کی حتمی تعداد صرف اللہ جانتا ہے ۔ان گاڑیوں کے ساتھ ڈرائیورز اور پٹرول بھی شامل کرلیں۔یہ تماشا بھی ہمت کر کے ختم کر دینا چاہیئے۔ کسی ایسے شخص کو وزیر اعظم یا وزیر نہ بنایا جائے ،جس کی جان کو چوبیس گھنٹے خطرہ لاحق ہو ۔سیکیوریٹی اور پروٹوکول کا تصور مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔صرف سرکاری امور کی ادائیگی کےلئے ایک کار دستیاب ہو اور بس۔ نجی استعمال کےلئے وزیراعظم اور وزرا اگر چاہیں تو اپنے اخراجات سے ذاتی گاڑی رکھ سکتے ہیں ۔ پبلک آفس ہولڈرز کی تنخواہوں اور مراعات کو کم کر کے حد اعتدال کے اندر لایا جائے۔ فضائی سفر، بیرون ملک علاج، بجلی ،گیس اور فون کے بلز کی ادائیگی وغیرہ سے حکومت کو ہاتھ اٹھانا ہو گا۔پھر سول محکموں کے گمنام سربراہوں کی تنخواہوں کو بی پی ایس کی ذیل میں لانا ضروری ہے ۔ایم۔پی ون، ٹو اور تھری کو مکمل طور پر ختم کردینا چاہیئے ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی مراعات مکمل طور پر ختم کی جانی چاہئیں ۔بیرون ملک سرکاری خرچ پر علاج مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیئے۔شہری انتظامیہ کی شہنشاہی کو یکسر ختم کرنا ہوگا۔عملہ، مراعات ، ہمہ اقسام ٹرانسپورٹ ، شہروں کے وسط میں ایکڑوں پر محیط رہائش گاہیں بھی ختم کرنی ہوں گی۔ مقروض ریاست کو اب تک معاف کیے گئے تمام تر قرضے مع سود فوری طور پر واپس لے لینے چاہیئں۔میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن ایک عوامی بغاوت اگر ایسا کروا سکے تو پاکستان کے قرضے اسی سے ادا ہو سکتے ہیں۔ دفاع سے متعلق تمام اداروں کو بھی اپنے اخراجات ، حجم اور تمام تر ذیلی اور اضافی ذمہ داریوں اور مصروفیات سے دستکش ہو کر اپنے بنیادی کام کی طرف متوجہ رہنا ہوگا۔یہ ذرا مشکل کام ہے لیکن اگر ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ جہاں تک معدنیات کی تلاش کا معاملہ ہے۔تو قوم کو مبارک ہو ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے اب تک اربوں روپے کی سائیٹیفک ریسرچ گرانٹ خرچ کر کے دنیا کی نایاب اور منفرد تحقیق کرا رکھی ہے ۔یقینی طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پاکستان کے بہترین سائنسدانوں کا ہجوم ہو گا ۔یہ معدنیات اور دیگر سائنسی ترقیات ہمارے ذہین سائنس دان خود کر لیں گے۔
کالم
وزیراعظم سے پوچھا کس نے ہے؟
- by web desk
- اگست 30, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 372 Views
- 1 سال ago