کالم

پاکستان کی خارجہ محاذ پر کامیابیاں

پی ڈی ایم دور حکومت میں خارجہ امور میں پاکستان کی کارکردگی مثالی رہی، مثلا موسیماتی تبدیلی کے معاملہ میں پاکستان کے موقف کو دنیا بھر میں پذائری ملی،گذشتہ سال غیر معمولی بارشوں سے پاکستان کے کئی علاقے متاثر ہوئے تو امریکہ اور فرانس ہی نہیں بلکہ یورپی یونین نے بھی اسلام آباد کے موقف کو تسلیم کیا،پاکستان کو ایک کامیابی یہ بھی ملی کہ اس نے قدرتی آفات سے متاثرہ ملکوں کےلئے ”لاس اینڈ ڈمیج فنڈزکاپ27” کئے قیام میں نمایاں کردارادا کیا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ پاکستان کو درحقیقت اسی تناظر میں دیکھا گیا،اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اقوام عالم نے پاکستان کی اس طرح مدد نہیں کی جس کی بجا طور پر ضرورت تھی مگر بھی سیلاب متاثرین کی امداد بارے حکومتی کاوشیش رنگ لائیں، مثلا جب پاکستان نے عالمی برداری سے امداد کی اپیل کی تو امریکہ اور چین ہی نہیں عرب ممالک اور آسیان نے بھی آگے بڑھ کر تعاون کیا، پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ایک ثبوت یہ بھی سامنے آیا کہ ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل گے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالنے کےلئے بھارت سمیت ہمارے بدخواہوں نے کیا کیا منصوبے بنا رکھے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں مزید کچھ عرصے رہنے سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ، پاکستان نے او آئی سی کو متحرک بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا،اسلام آباد تواتر کے ساتھ اپنی اس خواہش کا اظہار کرتا رہا کہ مسلم ممالک اگر اس اہم پلیٹ فارم میں فعال کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلم دنیا کی مشکلات میں کمی واقعہ نہ ہو، پی ڈی ایم حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پڑوسی ملکوں کےساتھ تعلقات بہتر بنانے کو کلیدی اہمیت حاصل رہی، پاکستان کے اخلاص کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ شبہازشریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے فورا بعد بھارت کو تنازعہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کی دعوت دی مگر افسوس مودی سرکار نے پاکستان کے اخلاص کو نظر انداز کیا، مسئلہ کشمیر پر پی ڈی ایم کی حکومت نے اقوام عالم کو باور کروایا کہ اس تنازعہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان محض زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا نہیں بلکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،پاکستان نے سفارتی مہم کے زریعہ مغربی دنیا کی ان اہم شخصیات کا بھی حوالے دیا جو مقبوضہ کشمیر کو انسانوں کی سب سے بڑی جیل قرار دیتے ہیں،کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزریوں کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا کہ ارون دتی رائے جیسے بھارتی دانشور بھی برملا طور پر مقبوضہ کشمیر میں سیکورٹی فورسز کے مظالم پر آواز بلند کررہے ہیں، سچ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا کے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط یوں مستحکم ہوچکے کہ وہ نئی دہلی کو سات خون معاف کرنے پر آمادہ ہیں، مغرب میں بھارت کی پذیرائی کی ایک اور وجہ نئی دہلی اور بجینگ میں پائے جانےوالے اختلافات ہیں، امریکہ اور یورپی یونین سمجھتے ہیں کہ چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی طاقت کا اگر کوئی مقابلہ کرسکتا ہے تو وہ بجا طور پر بھارت ہے۔ پاکستان نے اپنے دوسرے پڑوسی ملک افغانستان سے بہتر تعلقات کی سنجیدہ کوشیش جاری رکھیں، طالبان حکومت کو احساس ہونا چاہے کہ یہ پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ افغان طالبان سے بات چیت کرکے طویل ترین جنگ کا خاتمہ کرے، دنیا جانتی ہے کہ طالبان حکومت اپنے خیالات یا نظریات میں تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں، خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے طالبان کی پالیسوں کو نہ تو مغربی دنیا نے تسلیم کیا اور نہ ہی مسلم ممالک میں کوئی ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر آمادہ ہے، طالبان حکومت سے ایک شکوہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاں کالعدم ٹی ٹی پی کو پناہ دے رکھی ہے، پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ طالبان حکومت کسی صورت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں، بظاہر افغان طالبان کا بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں مگر عملاً ایسا نہیں، آج پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ بھی طالبان حکومت کو وارنگ دے چکا کہ وہ لسانی، سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر دہشتگردی کرنے والوں کو پناہ نہ دے، روس اور یوکرین میں جاری جنگ پر بھی پاکستان کا موقف انتہائی تعمیری ہے، اسلام آباد ایک سےزائد مرتبہ فریقین سے گذارش کرچکا کہ مسائل کے حل کےلئے بات چیت کا آغاز کریں، پاکستان نے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر دوٹوک انداز میں کہا کہ روس اور یوکرین کی جنگ سے دونوں ممالک ہی نہیں دنیا متاثر ہورہی ہے، درحقیقت پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملک تصادم سے گریز کرتے ہوئے مذاکرت کے زریعہ تنازعات کا خاتمہ کریں۔ پاکستان کی امن کی کوشش کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں خوشگوار تعلقات کی عرصہ دارز سے کوشش جاری رہی، حال ہی میں چین نے جس طرح سے دو اہم مسلم ممالک میں سفارتی تعلقات بحال کروائے اس میں در پردہ پاکستانی کاوشوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، یوں یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ خارجہ محاذ پر پاکستان کی کارکردگی اطمینان بخش رہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے