پاکستان میں اور کسی شعبہ علم میں تحقیق و تفتیش و اختراع کے اتنے چراغ روشن نہیں ہوئے ہوں گے ،جتنے ایک نسبتاً نئے مضمون مطالعہ پاکستان میں روشن کئے گئے ہیں۔ اس شعبہ علم کی ولادت قیام پاکستان کے بہت بعد میں عمل میں آ سکی ۔چونکہ یہ ایک نیا شعبہ علم تھا ،تو پھر اس شعبہ علم نے پرانی تاریخ اور اذکار رفتہ قسم کے حقائق کو قبول کرنے یا دھرانے کی بجائے سب کچھ نیا نیا بنا کر پیش کرنے اور ہضم کرانے کے مشن کا آغاز کیا۔یہ مشن اس طور کامیاب ہوا کہ فرد(شہری)، معاشرے اور ریاست کی روایتی تکون میں ریاست کو مرکزیت حاصل ہو گئی۔ چنانچہ ہر فرد یعنی شہری کی زندگی کا واحد مقصد اور معاشرے کا اساسی منصب صرف اور صرف ریاست کی خدمت اور اطاعت ٹھہرا۔اقبال نے تو خودی کے تین مراحل بیان کر رکھے ہیں ،یعنی اطاعت،ضبط نفس اور نیابت الہٰی ہم نے معاشرے کے لیے اطاعت، فرد یعنی شہری کے لیے ضبط نفس جبکہ خود اپنے لیے نیابت الہی کا مقام پسند اور از خود اختیار کر رکھا ہے ۔ہر پاکستانی کو کان میں اذان دینے کے دس پندرہ منٹ کے بعد ایک بات بتا اور سمجھا دی جاتی ہے کہ اس ریاست کو چھ اطراف سے خطرات لاحق ہیں ،مراد یہ کہ مشرق،مغرب ،شمال جنوب کے علاہ اوپر یعنی آسمان اور نیچے یعنی زمین کی طرف سے بھی خطرات لاحق ہیں ۔ مطالعہ پاکستان کی ایک نادر دریافت یہ نظریہ بھی تھا کہ؛ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔مطالعہ پاکستان کے "محققین نے یہ سوچے بغیر ہی یہ تصور پیش کردیا کہ پرانے زمانے میں قلعے جنگوں کے لیے تعمیر کیے جاتے تھے۔جبکہ جدید ریاستیں اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لیے قائم کی جاتی ہیں۔پاکستان کا قیام بھی انہی مقاصد کے حصول کی خاطر کیا گیا تھا۔لیکن جلد ہی اس مملکت کا دارالحکومت کراچی جیسے ترقی یافتہ ساحلی شہر سے اٹھا کر رائل برٹش آرمی کے نادرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کی پشت پر مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں لا آباد کیا گیا۔اور مستقبل کے تمام عزائم کی نشاندہی کرنے کے لیے اس نئے شہر کا نام۔اسلام آبادرکھ دیا گیا۔اب باقی کے سارے کے سارے ابواب اسی شہر میں لکھے جا رہے ہیں۔ یہ ملک جہاں تک حضرت علامہ اقبال نے قائد اعظم کو بتایا اور سمجھایا تھا کہ ؛ شہریوں کی روٹی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بنایا جانا تھا ۔یہ ضرورت اس مہارت اور سلیقے سے پوری کی گئی کہ اب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی اس مملکت کے مفلس و بے نوا لوگ آٹے کی بوری تلے آکر جان گنوا رہے ہیں۔ یہ خطہ صدیوں سے گندم سمیت انواع و اقسام کے اناج پیدا کرنے میں نہ صرف خود کفیل رہا ہے بلکہ افغانستان سمیت وسطی ایشیا تک کی ضروریات پوری کرتا آ رہا ہے۔اب بھی صرف حکمرانوں کے اشتراک و تعاون سے ترتیب دی جانے والی بے حکمتی اورکج سمتی کی وجہ سے یہاں کی گندم اور چینی باہر اور باہر سے خریدی جانے والی گندم اور چینی یہاں کے اصول کے تحت ملک میں آٹے چینی کا بحران پیدا کر کے ،اسے حل کرنے کی تدابیر پر تفکر کیا جا رہا ہے۔ اب کی بار پاکستان کے حکمرانوں میں دیگر خوبیوں کے علاہ ڈھٹائی اور بے شرمی کا رنگ بھی نمایاں طور پر نظر آ رہا ہے۔داد دی جانی چاہئے پاکستان کے عوام کو ، جو ہمہ وقت بغیر کسی حال اور مستقبل کے ، صرف ماضی میں زندہ رہنے کی بے مثال صلاحیت کا مظاہرہ کیے چلے جا رہے ہیں۔میں نے ستم ظریف سے پوچھا کہ اسے چونکہ مطالعہ پاکستان کے مضمون میں اپنی قابلیت اور فضیلت پر بڑا ناز ہے ،تو مجھے بتائے کہ اس کے خیال میں پاکستان کتنی اقسام کا ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟ یہ سنتے ہی ستم ظریف کی آنکھیں چمک اٹھیں،مطالعہ پاکستان اس کا پسندیدہ مضمون ہے ،وہ کہتاہے کہ اگر سارے مضامین مطالعہ پاکستان جیسے ہوں تو ملک تعلیم کے میدان میں نہایت سرعت سے ترقی کر سکتا ہے۔وہ کہتا ہے کتنے کمال کی بات ہے کہ چھٹی جماعت سے لے کر بارہویں تک سب کچھ وہی اور وہیں رہتا ہے ۔میں نے اسے اصل سوال کے جواب کی طرف متوجہ کیا ۔تو خودکار طریقے سے بتانے لگا کہ ویسے تو پاکستان کئی قسم کا ہوتا ہے ، لیکن شروع شروع میں صرف دو پاکستان ہوا کرتے تھے ۔ایک مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان ۔پھر اور کئی اقسام کے پاکستان بنتے چلے گئے ،جیسے کہ امیر لوگوں کا پاکستان ،مفلس و نادار لوگوں کا پاکستان ، اسلام کا قلعہ پاکستان ،لیکن تازہ ترین نصاب کے مطابق اس کی نمایاں اقسام دو ہیں ایک پرانا پاکستان ، اور دوسرا نیا پاکستان ۔پرانے پاکستان میں امریکی مدد اور اعانت سے روس کے خلاف جہاد جہاد کھیلا گیا،ملک بھر کے جدید تعلیم کے آرزو مند نوجوانوں کو طالب علموں کی بجائے مجاہدین بنایا گیا۔افغان جہاد تمام ہوا تو امریکہ نے انہی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔پھر پاکستان کو بتا اور سمجھا دیا گیا کہ اب پاکستان کو باہر سے نہیں ،اندر سے خطرات لاحق ہیں۔ یہ ایک طویل قصہ ہے، داستان ہے ، ڈرامہ ہے اور قصے ، داستانیں اور ڈرامے کبھی بھی تمام نہیں ہوتے ۔اس کے بعد ایک نیا پاکستان کا نظریہ پیش کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان میں پہلے جو بھی ہو چکا ، اور جو بھی سیاستدان تھے ،وہ سب غلط اور مکمل طور پر خائن اور گناہ گار لوگ تھے۔صرف نیا پاکستان والے اچھے، ایماندار اور نیک لوگ ہیں ، لوگ کیا ہیں ،نئے پاکستان والی پوری جماعت ہی جماعت الصالحین ہے ۔لیکن ان صالحین سے سوائے ناچنے گانے اور خواب دکھانے کے اور کوئی کام ہو نہیں سکا۔ستم ظریف نے مزید وضاحت کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کی ،کہنے لگا کہ اس کے خیال میں یہ ہمارا ، تمہارا اور اپنا پاکستان کی باتیں ،ملک کو گیند بنا کر اس سے اسکواش کھیلنے جیسی باتیں ہیں۔ پاکستانیوں کو نہ پرانا پاکستان چاہیے ، نہ نیا پاکستان اور نہ اب اپنا پاکستان ، لوگ ایک فلاحی پاکستان کے منتظر ہیں۔
کالم
پاکستان کی چند نمایاں اقسام
- by Daily Pakistan
- اپریل 18, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 348 Views
- 2 سال ago