کالم

پاکستان کے بدخواہ نامراد رہیں گے

وطن عزیز کی اکثریت ایسے محب وطن پاکستانیوں پر مشتمل ہے جو تمام تر شکوے شکایات کے باوجود ملک کی محبت سے سرشار ہیں ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے گردوپیش میں ایسوں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جنھیں آزادی کی ہرگز قدر نہیں، ٹھیک کہا جاسکتا ہے کہ آزادی کی قدر کشمیریوں اور فلسطینیوں جیسی مظلوم قوموں سے پوچھی جائے جو آئے روز اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر حریت کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں،اس پس منظر میں پھرتقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی ہجرت پر مشتمل واقعات کسی بھی باضمیر شخص کو مملکت خداداد کی قدرجاننے کے لیے بہت کافی ہیں، پاکستان کی نئی نسل کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کب اور کیوں ان کے آباو اجداد نے اپنے ملک کے لیے جان مال حتی کہ عزتیں تک قربان کر ڈالیں، تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد میں برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے اینٹوں کی جگہ اپنی ہڈیاں ، گارے کی بجائے اپنا گوشت اور پانی کی جگہ خون پیش کیا ، قیام پاکستان کے لیے برصغیر پاک وہند کے نوجوان ہی نہیں خواتین ، بچوں اور بوڈھوں نے بھی تن من اور دہن کی قربانی دی ،تاریخی طور پر انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 میں مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں آیا تھا یوں 1947 میں 346 سال بعد برصغیر پاک وہند سے انگریز رخصت ہوئے ، اس دور میں انگریزوں نے جو ظلم وستم برصغیر پاک وہند کے رہنے والوں پر روا رکھا اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائےکم ہے ،1803 میں متحدہ ہندوستان سے مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا، اس پر فتن ماحول میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز دہلوی نے بھرپور جرات اور استقامت سے فتوی جاری کیا کہ ہندوستان "دارالحرب ” ہے ، مقصد یہ ہے کہ ہندوستان اب غلام ہوچکا ہے چنانچہ مذہب اور ذات پات کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام ہندوستانیوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے ، شاہ عبدالعزیز دہلوی کی آواز پر علما کرام کی اکثریت نے لبیک کہا اور ملک بھر میں انگریز سرکار کے خلاف مزاحمتی فضا بن گی ، سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے مسلمانوں میں جذبہ جہاد بیدار کرنے کےلئے بے مثال کوشش کی ، انگریز سرکار کے خلاف ایک خدا، ایک رسول اور ایک قرآن کو ماننے والوں کو پوری قوت سے بیدار کیا گیا۔ بعدازاں دونوں مجاہدین نے انگریز سرکار کے خلاف جذبہ ایمانی سے لڑتے ہوئے ساتھیوں سمیت بالا کوٹ کی پہاڈی پر جاکر جام شہادت نوش کیا ، 1857 میں ایک بار برصغیر پاک وہند کے مسلم علما نے انگریز سرکار کے خلاف جہاد کا فتوی دیا مگر اس دوران انگریز فوج پورے برصغیر میں نہ صرف پھیل چکی تھی بلکہ قابل زکر تعداد میں اسے مقامی افراد کی حمایت بھی حاصل تھی ، انگریز سرکار نے برصغیر پاک وہند کی مقامی آبادی کو مذہب سے بیزار کرنے کی منصوبہ بندی یوں کہ عیسائی پادریوں کو ملک بھر میں پھیلا دیا تاکہ عوام کو ان کے روایتی مذہب سے برگشتہ کیا جاسکے ، 1857 کی جنگ آزادی سے نمٹنے میں انگریز سرکار نے ظلم وبربریت کی وہ تاریخ رقم کی جسے پڑھ یا سن کر آج بھی انسانیت شرما جائے، مثلا ان تمام سپاہیوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا جنھوں نے انگریز سرکار کے حکم پر اپنے ہم وطنوں پر گولیاں چلانے سے انکار کردیا تھا ، 1857کی جنگ آزادی کو انگریزوں نے غدر کا نام دیا ، جنگ آزادی ناکام ہونے پر انگریز سرکار نے بغاوت کا زمہ دار مسلمانوں کو قرار دیا جس کی وجہ یہ بتائی گی کہ چونکہ برٹش حکومت مغل بادشاہ کو ہٹا کر قائم کی گی لہذا لامحالہ طور پر مسلمانوں نے ہی انگریز سرکار کے خاتمے کی سازش کی، تاریخی طور پر انگریزوں کو مسلمانون کے خلاف بھڑکانے میں ان ہندووں رہنماوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکت جن کی رسائی انگریز سرکار تھی ،انتہاپسند ہندو آگاہ تھے کہ اگر انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان خیلج بڑھے گی تو اس کا لامحالہ فائدہ ہندووں کو ہوگا ، یوں چانکیہ سیاست کے پیروکار تقسیم کرو اورحکومت کرو کا فارمولہ مسلمانوں پر لگانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب رہے ، اس پس منظر میں وطن عزیز کی مشکلات پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ میں اور آپ اپنے اندر تحریک پاکستان کا جذبہ بیدار کریں، وقت اگیا ہے کہ ہم اپنے ملک کو اپنے گھر اور کاروبار سے بڑھ کر اہمیت دیں ، تشویشناک یہ ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت مملکت خداداد میں مایوسی پھیلائی جارہی ہے، دانستہ اور غیر دانستہ طور پر کچھ پاکستانی دانشور اور لکھائی درپیش مسائل کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو ملک کے مستقبل کے حوالے سے گمراہ کررہے ہیں، ہمیں نہیں بھولنا چاہے کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے ، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ارباب اختیار نے غلطیاں کی ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مملکت کے وجود پر ہی سوال اٹھا دئیے جائیں۔ یقینا پاکستانی قوم کسی بھی اعتبار سے صلاحیتوں سے کم نہیں، دنیا کا شائد ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں پاکستانی اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا رہے ، ادب ہو یا کھیل ، سائنس ہو یا آرٹ اہل پاکستان نے ہمیشہ ملک وملت کا نام روشن کیا ،وقت آگیا ہے کہ ہم منفی سے زیادہ مثبت چیزوں پر توجہ مرکوز رکھیں ، ایٹمی صلاحیت کا حامل پاکستان آج نہیں تو کل درپیش چیلجز پر قابو پا کر یوں سرخرو ہوگا کہ اس کے بدخواہوں کے ہاتھ میں شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں آئےگا۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے