کالم

پاک بنگلہ دیش تعلقات کی نئی اٹھان

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے جمعہ17جنوری کو جاری ہونے والی اپنی ورلڈ رپورٹ میں کہا ہے کہ اگرچہ عالمی سطح پر جمہوریت اور حقوق کے حوالے سے 2024ایک ناہموار سال رہا ہے لیکن ایشیا بحرالکاہل خطے میں کچھ حوصلہ افزا علامات بھی دیکھنے میں آئیں ۔ رپورٹ میں بنگلہ دیش کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہاں لوگوں نے جمہوریت اور حقوق کےلئے آواز اٹھائی اور جدوجہد کی جس میں وہ کامیاب رہے ۔ رپورٹ میں شیخ حسینہ کے جبر کےخلاف طالبعلموں کے ڈٹ کر کھڑے ہونے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ عوام کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کےساتھ ساتھ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں میانمار اور افغانستان کی بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں عوام ابھی تک جبر اور استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں اور حکمرانوں کی سختیوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔ نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس واچ کی ایشیائی خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق رپورٹ میں کہا گیاہے کہ جب حقوق کا تحفظ ہوتا ہے تو انسانیت پروان چڑھتی ہے اور جب اس سے انکار کیا جاتا ہے تو اسکی قیمت کا تعین انسانی زندگیوں پر نقش ہونے والی اثرات کرتے ہیں۔ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ اور پولیس نے طالبعلموں کے پرامن مظاہرین پر حملہ کیا جوسرکاری ملازمتوں میں کوٹے سے متعلق تھے۔اس ضمن میں” وی او اے“نے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ شیخ حسینہ کے 15 برسوں پر پھیلے ہوئے اقتدار کو حکومت مخالفین اور حقوق کی آواز اٹھانے والوں کو ریاستی طاقت سے دبانے اور کچلنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شیخ حسینہ نے طالب علموں کے مطالبوں کو نظرانداز کر کے ان کے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکیں اور بالآخر انہیں اقتدارچھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔
کوٹے کے تحت زیادہ تر سرکاری ملازمتیں 1971 کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کے خاندانوں کیلئے مختص تھیں۔طالب علم کوٹے کا خاتمہ اور میرٹ کے اطلاق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے مظاہروں کو کچلنے کےلئے بڑے پیمانے پر کریک ڈاو¿ن کیا۔ اور مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیا گیا۔ جولائی میں ہونے والے تشدد میں مبینہ طور پر 100 سے زیادہ بچوں سمیت لگ بھگ 1000 افراد لوگ مارے گئے۔ حکومت گرنے کے بعد شیخ حسینہ بھارت فرار ہو گئیں اور نوبیل انعام یافتہ شخصیت ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی۔تب سے اب تک ڈاکٹر یونس اپنی کوششیں احتساب پر مرکوز کیے ہوئے ہیں اور انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو مظاہروں کے دوران ہونے والی زیادتیوں اور ان کی بنیادی وجوہات کی تحقیقات کےلئے ایک ٹیم بھیجنے کی دعوت دی ہے۔اس بنیادی تبدیلی کے بعد سب سے اچھا اثر پاک بنگلہ دیش تعلقات پر پڑا ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ عرصے میں دو طرفہ تعلقات، تجارت کی بحالی اور ویزہ اجرا میں نرمی کے بعد دفاعی تعاون کےلئے بھی اعلی روابط کا آغاز ہوا ہے جسے خوش آئند کہا جا رہا ہے۔گزشتہ ہفتے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بنگلہ دیش کے آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹنٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے فوج کے ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔سابق بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈھاکہ اور اسلام آباد کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی ، سفارتی اور کاروباری سطح پر رابطے بڑھے ہیں۔ دوطرفہ تعلقات میں گرم جوشی کے اس ماحول میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈاربھی ڈھاکہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا یہ پہلا دورہ بنگلہ دیش تھا۔ ایک طرف پاکستان اوربنگلہ دیش ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں تو دوسری جانب اسکے بھارت کےساتھ تعلقات میں تناو¿بڑھ چکا ہے۔ہم نے دیکھا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی کے پیشِ نظر ڈھاکہ میں بھارت کے ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کیا گیا ۔چونکہ شیخ حسینہ نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے اور ڈھاکہ کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ نئی دہلی شیخ حسینہ کو ملک بدر کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے مگر بھارت اس ضمن میں مسلسل انکاری ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی بہت گنجائش ہے جو کہ خطے کے بدلتے حالات میں اسٹریٹجک تعلقات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ عبوری حکومت کے دور میں پاک بنگلہ تعلقات میں نمایاں بہتری نظر آ رہی ہے ۔
معیشت و تجارت کے شعبوں میں اہم پیش رفت کے علاوہ دفاع کے میدان میں بھی باہمی روابط کا فروغ جاری ہے ۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش کے فوجی وفد کی پاکستان آمد، جی یچ کیو کا دورہ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا سے تفصیلی ملاقات اور بیرونی مداخلت کےخلاف متحد رہنے کے عملی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ آج سے 54 برس پہلے اپنوں کی غلطیوں اور دشمن کی سازشوں کے سبب کٹ جانےوالے دو باز ایک دوسرے سے جڑنے کو بے تاب ہیں۔ بھارت کی شہ پر پاکستان کو دولخت کرنے والی قیادت آج بنگلہ دیش کے نوجوانوں کی شدید نفرت کا ہدف ہے ۔ فوجی مداخلت کے ذریعے پاکستان کو توڑنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے عونت میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔مگر آج قیام پاکستان کی بنیاد بننے والا دو قومی نظریہ نئی توانائیوں کےساتھ صداقت کے نئے باب رقم کرنے کو تیار ہے۔اس حقیقت کا ایک شاندار عملی مظاہرہ بنگلہ دیش میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منائے جانے کی شکل میں ہوا۔ اسی طرح ایک اور پیش رفت یہ سامنے آ رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستان مخالفت پر مبنی تعلیمی نصاب میں بھی تاریخی حقائق کی درستگی کی جانب بھی قدم اُٹھایا جا رہاہے ۔ یہ سب اس وجہ سے ہورہا ہے کہ بنگلہ دیشی عوام حسینہ واجدکے پاکستان سے منافرت پر مبنی دور میں بنگلہ دیش کا عملًا بھارتی کالونی بن جانا دیکھ چکے ہیں۔ یہی بڑا سبب تھا کہ طلبہ نے حسینہ واجد حکومت کے خلاف تحریک کا دل کھول کرساتھ دیا اور پھر بنگلہ دیش میں نئی صبح کا آغاز ہوا، اسکے بعد پاک بنگلہ نئے تعلقات محض چندماہ میں کئی عشروں کی دوری کو مٹاتے ہوئے ایک پیج پر آ بیٹھنا خوش آئند ہے۔اب عالمی فورموں پر پاکستان اور بنگلہ دیش ہم آواز ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں ملکوں کے سربراہوں میں براہ راست ملاقات ہوئی۔ خطے کی اہم تنظیم سارک کو بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو بھارت کی عدم دلچسپی کے باعث غیر فعال ہے ۔ دفاعی شعبے میں تعاون کے حوالے سے طے پاچکا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج بنگلہ دیش کی افواج کو تربیت دیں گی جبکہ رواںسال دونوں ملکوں کی افواج مشترکہ مشقوں میں بھی حصہ لیں گی۔ دعا ہے کہ دونوں برادر ملک میں باہمی یگانگت کا ازلی تعلق ہرنئے چڑھنے والے سورج کےساتھ روشن اورمتحد ہوتا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے