کالم

پی ٹی آئی قیادت کے شرپسند وں سے رابطے کا انکشاف

کیا وقت آیا ہے کہ ہاتھ پاوں گواہی دینے لگے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی شواہد پر تصدیق کی مہر لگانے لگی ہے۔ سانحہ 9مئی کے دوران پی ٹی آئی کی قیادت یاسمین راشد،حماد اظہر،محمود رشید،اعجازچودھری اور دیگر مرکزی رہنماوں کے شرپسند وں سے رابطے کا انکشاف سامنے آ چکا ہے۔اب جائے اماں کہیں نہیں اور ڈھٹائی و بے شرمی سے جرم سے انکار کی گنجائش بھی باقی نہیں بچی۔جیوفینسنگ سے روابط کا ریکارڈ سامنے آچکا ہے۔غضب خدا کا 8 مئی کو زمان پارک اور9مئی کو جناح ہا س حملے میں154موبائل نمبر مشترک پائے گئے ہیں۔حماد اظہر کے موبائل نمبر سے 10کالیں شرپسندوں کو کی گئیں اور محمود الرشید75بار موبائل رابطوں کے ساتھ سرفہرست پائے گئے ہیں۔ہمارے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی چھ اہم شخصیات کے شرپسندوں سے روابط کے ریکارڈ کی تصدیق مکمل ہو چکی ہے۔ جیو فینسنگ کے ریکارڈ کے مطابق یاسمین راشد،حماد اظہر،محمود الرشید ، اعجاز چوہدری ،اسلم اقبال، مراد راس اور دیگر لوگ نو مئی کے تاریک اور شرمناک دن کوجرائم پیشہ عناصر سے رابطے میں تھے ۔ یہ لوگ انہیں آگ لگانے اور بلوہ کرنے کی تلقین کر رہے تھے۔
مجموعی طور پر215 کالیں چھ رہنما ں کے ساتھ رابطے میں رہی ہیں ۔ یاسمین راشد کا41 بار بذریعہ کال مظاہرین سے رابطہ ہوا تھا۔ حماد اظہر کے موبائل نمبر سے 10کالیں شرپسندوں کو کی گئی تھیں ۔محمود الرشید75بار موبائل رابطوں کے ساتھ سرفہرست رہے ہیں۔ اعجازچوہدری کی جانب سے کی جانیوالی اورموصول ہونےوالی 50 کالوں کا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔میاں اسلم اقبال16اورمراد راس نے 23کالیں جناح ہا وس میں موجود شرپسندوں کوکیں۔سانحہ9مئی کے بعد ملزمان کی گرفتاری اور شناخت میں جیو فینسنگ کا کردار مرکزی اور کلیدی رہا ہے۔ بیشتر ملزمان کو جیو فینسنگ کی مدد سے ہی گرفتار اور شناخت کیا گیا ہے۔پولیس میں موجود ہمارے ایک ذرائع کے مطابق شرپسندوں نے جن جن جگہوں پر حملے کئے تھے، اس جگہ کی جیو فینسنگ کروائی گئی ہے جس کی بنیاد پر تاحال گرفتاریاں جاری ہیں۔ جیو فنسنگ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے کسی آدمی کے موبائل کی لوکیشن کا سراغ لگایا جاتا ہے اور اس کے بعد نقش پا پر پاوں رکھ کر سکیورٹی ادارے جرم کے سرے پر پہنچ جاتے ہیں۔تحریک انصاف کے مدارا لمہاموں اور منصوبہ سازوں نے جوکیا ہے،وہ خفیہ ایجنسیوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں۔اسی لیے عمران خان حد سے زیادی اچھل کود کررہے ہیں کہ شاید دباو ڈالنے سے جان بچ جائے۔
دوسری جانب اسی تناظر میں سیالکوٹ کے سپوت اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریک انصاف کے قدموں کے نیچے سے زمین ہی کھینج لی ہے۔خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحمل اور استقلال سے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں،اس حوالے سے پارلیمان کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا، دفاعی تنصیبات پر حملوں کے عزائم ہندوستان کے تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی پاکستانی کے نہیں، اس حوالے سے گو ابھی فیصلہ نہیں ہوا مگر ہم پی ٹی آئی پر پابندی کا جائزہ ضرور لے رہے ہیں، 9 مئی کے واقعات اچانک نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور کور کمانڈر، جی ایچ کیو، گجرانوالہ کنٹونمنٹ اور میانوالی ائیر بیس و دیگر مقامات پر حملوں اور شہدا کی تحقیر کے منصوبے کے پیچھے گھناونے مقاصد تھے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کے علاوہ کسی سول عمارت پر حملہ نہیں کیا گیا، ان تمام حملوں کے متعلق بریفنگ کے حوالے سے ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے،یہ کوئی آسان اور سہل بات نہیں۔ظاہر ہے اس ضمن میں نواز شریف،آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے طویل مشاورت ہوئی ہو گئی،سیاسی جماعتوں نے اپنی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاسوں میں بھی یہ مسئلہ رکھا ہوگا،پھر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی اس پر بحث و مباحثہ ہوا ہوگا۔ تب جا کر خواجہ آصف نے انتہائی جسارت کے ساتھ اقدام کیا ہے۔
عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نو مئی کو عسکری تنصیبات،املاک میں توڑ پھوڑاور جلا و گھیراو کے واقعات کے بعد اپنی27 سال کی تاریخ کے سب سے کڑے اور کٹھن امتحان سے گزر رہی ہے۔اس امتحان کی شدت اور تپش کا اندازہ لگائیں ک شیریں مزاری کو بھی9 اور 10 مئی کو ہونے والے پر تشدد واقعات اور جنرل ہیڈکوارٹر پر حملوں کی شدید مذمت کرنی پڑی۔محض مذمت ہی کافی نہ تھی،ساتھ ہی اعلان کرنا پڑا کہ وہ اب کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہیں گی۔ان سے پہلے اور بعد میں بھی متعدد پی ٹی آئی کے رہنما مثلا عامر کیانی اور فیاض الحسن چوہان وغیرہ بھی پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ایک ایک کرکے سارے لوگ اب عمران خان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔اور تو اور ان کے بیس کمیپ پختونخوا میں ملزموں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔فوجی تنصیبات پر حملے اور مجسموں کی بےحرمتی کرنے پر پختونخوا میں 16 افراد کے کیس فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔مردان میں 6 افراد پر فوجی عدالتوں میں کیس چلیں گے۔مالاکنڈ سے 4، دیر سے 3 اور بنوں سے 3 ملزمان ملزمان پر بھی فوجی عدالتوں میں کیس چلیں گے۔یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ خواجہ آصف کی بات بے سبب اور عبت نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے