کالم

کھیل ،کھلاڑی اور کھلواڑ

سچی بات تو یہ ہے کہ ایک منتشر، محبوس، بے عدل اور مقبوضہ ریاست کا شہری ہونے پر نہایت شرمندہ اور حد درجہ اداس ہوں۔گزشتہ دنوں سے ملک میں جس طرح کے واقعات پے درپے وقوع پذیر ہو رے ہیں ،پاکستان میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان میں سیاسی راہنماں کی گرفتاری اور طویل اسیری کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں، رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے ساتھ ہونے والے برتا و¿پر کسی اعلی عدالت کے ماتھے پر شکن نمودار نہیں ہوئی تھی، ادھر اپنے بلوچستان کے مولانا ہدایت الرحمان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری اور ضمانت کی عدم دستیابی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان گرفتاریوں پر اعلی عدلیہ کا تحمل اور بے اعتنائی بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاسی وابستگی رکھنے والے،کسی بڑے جج کے چیمبر سے تعلق رکھنے والے ، بار کی سیاست میں متحرک اور احتجاجی سیاست کے نعرہ زن وکلا کو ہی اعلی عدالتوں کے جج مقرر کیا جاتا ہے۔ایسے سیاسی وکلا جج بن پر اپنے اپنے چیمبر کے وکلا کو بڑے بڑے خاموش ریلیف دیتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہماری اعلی عدالتیں عام شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے نہیں ،بلکہ طبقہ اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہمہ تن حاضر اور مصروف خدمت رہتی ہیں۔جس عام پاکستانی نے اعلی عدلیہ سے انصاف کی توقعات وابستہ کیں،اس نے گویا اپنی بقیہ عمر ذلت و خواری میں بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔پاکستانی اقلیم سیاست میں دو اداروںنے ہمیشہ مداخلت اور باہم معاونت کی روایت برقرار رکھی ہے ، اور اپنے اس طرز عمل سے ریاست سے اپنی حیثیت سے زیادہ حصہ وصول کرتے رہے ہیں ۔ہمارے سیاستدان بھی کوشش کر کے کہیں نہ کہیں اپنی کنڈی اٹکاتے رہے۔ایک سیاسی جماعت نے تو عدلیہ اور بیوروکریسی میں اپنے ہم خیال ججز اور افسران کی پرورش کی۔ پرویز مشرف دور میں شاید پہلی بار ایک ادارے کے اندر سے دو آرا یا الگ الگ موقف سامنے آیا،جب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ایک چیف جسٹس کو الزامات کی بنیاد پر عہدے سے الگ کیا ، تو تاریخ میں پہلی بار ادارے کے اندر سے ایک آنکھ کے اشارے سے وکلا تحریک نے سر اٹھا لیا اور دیکھتے دیکھتے ایک بڑے عفریت کی شکل اختیار کر لی۔اس وقت اندازہ ہوا کہ ریاست کے جس ادارے کے بارے میں تاثر رہا کہ وہاں قیادت اور کمان ایک ہی ہاتھ میں ہوتی ہے ،وہاں اندر ہی سے نافرمانی بھی جنم لے سکتی ہے حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے اس سے زیادہ خطرناک اور افسوس ناک بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کے عمران خاں کی اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود سے گرفتاری پر سپریم کورٹ ریلیف نے خدشات اور منفی امکانات کی دکان کھول کر رکھ دی ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سارے ساز ایک ہی انگلی سے بجائے جا رہے ہیں۔صرف طبلہ بجانے کے لیے دونوں ہاتھ بیک وقت استعمال کرنے پڑتے ہیں ،لیکن ابھی تک شاید طبل جنگ بجا نہیں۔سپریم کورٹ نے نیب کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔اگلے ہی روز چشم فلک نے دیکھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نہ صرف اپنے ایک روز پہلے والے فیصلے کی تکذیب کرتے ہوئے نیب کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر ملزم عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔بلکہ ضمانت کی دیگر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو 17 مئی تک کسی نئے مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ ستم ظریف نے نہایت درجہ اداس قیاس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے اب پی ڈی ایم ایک گلہری بن کر اپنے سامنے ایستادہ پہاڑ کو دیکھے جا رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ موجودہ حکومت اپنی ہستی ،حیثیت کا درست تعین کرکے اپنے ردعمل کا اظہار کرے۔عمران خان اپنی گرفتاری کے ردعمل میں ،غیبی تائید اور نظر آنے والی اعانت کے ساتھ جس ہمالیہ پر چڑھ بیٹھا ہے ،اس کے سامنے شہباز شریف ایک چیونٹی سے بھی چھوٹا نظر آ رہا ہے ۔اس وقت تو حکومت کا تصور کرتے ہی کانوں میں طمانچے کی آواز گونجتی ہے۔آپ بھی آنکھیں بند کر کے حکومت وقت کا تصور کریں۔وفاقی حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے فیصل آباد والے ڈیرے پر بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی۔ادھر اسلام آباد میں بھی ان کے حالات زندگی خاصے دگرگوں نظر آرہے تھے۔ اسی شام لاہور کے ایک نیوز چینل پر رانا ثنا اللہ کا انٹرویو دیکھا، منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی ، آنکھوں میں ایسا خوف لہرا رہا تھا جیسے کوئی بلا دیکھ لی ہو، ادھورے جملوں میں ایک فلم ڈائریکٹر اینکر کے حد سے متجاوز اعتماد کے سامنے سہما ہوا رانا ثنا اللہ ایک ایسے سائیکل کی طرح نظر آ رہا تھا ،جس کا کسی ویران کچی سڑک پر ٹائر پنکچر ہو چکا ہو۔ حکومت کے اقدامات محض سینہ کوبی کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ حکومت پاس چونکہ لوگوں کو بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ،لہذا اس نے اپنے لوگوں کو ستانے کا فیصلہ کیا۔اور انٹرنیٹ سروسز میں بندش اور تعطل کا کھیل شروع کر دیا۔ جان لینا چاہیئے کہ شہریوں کی آنکھوں پر پٹی اور کانوں میں روئی ٹھونسنے والی ریاست بہت کچھ چھپا رہی ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ سروسز کی جزوی معطلی موجودہ حکومت کا اعتراف شکست اور اعلان ہزیمت ہے۔یعنی یہ سوشل میڈیاپر اپنے حریف سے خائف ہیں۔کہاں کس نے تماشا لگایا، تحقیق طلب ہے۔لیکن پورے ملک میں انٹرنیٹ سروسز معطل اور سست کرنے والے کیا کر رہے ہیں۔چونکہ انٹرنیٹ ابھی تک پابہ زنجیر ہے ، تو مطلب یہ ہوا کہ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri