کالم

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

یہ سچ ہے کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف کرنا ضروری ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہر کوئی انصاف کر نہیں پاتا کیونکہ یہ آسان کام نہیں۔ویسے بھی انصاف کرنا ججز کا کام ہے۔ انہیں سے انصاف کی امید رکھی جاتی ہے کیونکہ وہ انصاف دینے کی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ ججز پر انصاف کرنافرض ہے۔ جیسے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ سچ بولے رشوت نہ لے ملاوٹ نہ کرے۔ حرام نہ کھائے کسی کا حق نہ مارے۔ عبادات کرے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ کسی پر احسان نہیں کرتا۔ایسا کرنا یہ اسکے فرائض میں شامل ہے۔ بابا کرمو کہتا ہے اگر گزرے ہوئے سالوں کا جائزہ لیا جائے تو دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں جنات کی ٹیم اس ملک کے سسٹم کو چلاتی ہے۔ ان کے لیڈر بناتی ہے۔ لیڈروں میں ہوا بھرتی ہے تاکہ دوسروں سے نمایاں نظر آئیں۔ایسا کرنے سے وہاں کی جمہوریت کو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس سے جمہوریت اور سیاستدان وہاں کے بدنام ہوتے ہیں، ججز بدنام ہوتے ہیں،کرپٹ اور سفارشی لوگوں کو اداروں پرراج ملتا۔یہ انہی کا کمال ہے کہ کبھی آئین توڑ کر اقتدار میں آنے والوں کو جیل میں نہیں ڈالا یا ان پرکیس نہیں بنائے۔ قوم کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ نہ وہ خود قانون اور آئین کے مطابق کام کرتے ہیں اور نہ ہی ملک کے دوسرے اداروں کو قانون اور ئین کے مطابق چلنے دیتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے ملک کے تمام اداروں کا نظام درہم بھرہم ہو جاتا ہے۔سب سے اہم ادارہ کسی بھی ملک کا جوڈیشری کا کہلاتا ہے۔ اس سارے کھیل سے عدل کے نظام پر انگلیاں اٹھتی ہیں ججز بد نام ہوتے ہیں۔ اگر ججز انصاف دے رہے ہوں توپھر قوم میں مایوسی نہیں پھیلتی،بصورت دیگر عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے ،لگتا ہے یہاں بھی گل کھلائے جاتے رہے ہیں، ماضی میں ججز کو اپس میں لڑوائے جاتے رہے ہیں۔موجودہ چیف جسٹس کے ساتھ کیا کچھ نہیںہوا صدارتی ریفرنس میں کٹہرے میں اپنے ججز کے سامنے میاں بیوی کو کھڑا کیا گیا۔ اب قانون اور آئین کو ماننے والے لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔جنھوں نے ان کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کیں ۔ جب تک غلط کام کرنے والوں کوکٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا۔ انہیں سزا نہیں دی جاتی یہ کام رکے گا نہیں ۔ادارے مضبوط نہیں ہونگے۔ لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہو گا مگر کیا کیا جائے جہاں سابق وزیراعظم اور سابق ججز اپنے ساتھ ہونے والے زیادتی کے ازالے اور انصاف کےلئے اوپر والی عدالت میں جانا پسند کرتے ہوں ۔وہاں کی عوام کا اعتماد اپنی عدلیہ پر کیسے بحال ہو سکتا ہے۔ جہاں کا جج ملزم کو گڈ ٹو سی یوں کہتا ہو اور اپنے ساتھی جج کو بیگم کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوں وہاں عدلیہ پر انگلیاں تو اٹھیں گی۔ اب چیف جسٹس بندیال کی نوکری کی مدت ختم پنشن اور ان کی مراعات شروع ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔اب انصاف پر لگی نظریں دیکھنا چاہتی ہیں کہ جھنوں نے ریفرنس بنایا تھا انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ۔ امید تو ہے کچھ نہ کچھ تو کریں گے۔ امید تو ہے اب وہ کچھ نہیں ہو گا جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ قوم کی امیدیں اب ان پر لگی ہیں۔ ویسے بھی اب مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ حالات سے تنگ آ کر دیار غیر میں جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک ایسی درد ناک کہانی اپنے شہری کی زبانی پیش خدمت ہے ۔اس شہری کا کہنا ہے میرا اب یقین ہے کہ جو بھی اس ملک کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس کےلئے اس پرزمین تنگ کردی جاتی ہے۔ اب عملی اقدامات اٹھا کر ثابت کرنا ہو گا کہ ایسا اب یہاں نہیں ہے۔یہ شہری لکھتا ہے میرا نام عاشر عظیم ہے۔میں کرسچن کمیونٹی کا ایک فرد اور پاکستانی شہری ہوں ۔میں نے پی ٹی وی کے مشہور ڈرامہ سیریل ”دھواں“میں اظہر کے نام سے مرکزی کردار ادا کیا تھا! میں سی ایس ایس کرنے کے بعدکسٹمز میں افسر بنا، وہاں رشوت ستانی کا بازار گرم تھا، کسٹمز کے بڑوں کو مشورہ دیا کہ اس ادارے میں رشوت ہے اسے ختم کرنا ضروری ہے، اس وقت کے چیئرمین نے مجھے اس کےلئے رشوت فری نظام تیار کرنے کا کہا تھا ، میں نے دن رات ایک کر کے ایسا نظام بنانے میں کامیاب بھی ہوا جس سے رشوت کے راستے بند ہو سکتے تھے۔ایسا کرنے پر محکمہ کے بعض افسران میرے دشمن بن گئے، جھنوں نے ملکر مجھ پر جعلی کیس بنائے گرفتارکرایا مجھ پر ناجائز کمائی کا الزام لگایا۔حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ اپنی یہ جنگ لڑا پھر جیل سے رہا ہوا۔اس کے بعد میرے اوپر غداری کے مقدمات اور دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے رابطے کے الزامات لگائے اور پھر ان الزامات پر مجھے پھرگرفتار کر لیا گیا، اس کیس میں سے بھی کچھ نہ نکلا اور میں رہا ہو گیا۔ میں نے قرض لے کر ایک فلم ”مالک“بنائی جس میں پاکستان کی اشرافیہ ،بیورو کریسی ، کرپٹ نظام کو اجاگر کیا گیا تھا اس فلم کی نمائش نہ ھونے دی گئی جس سے میرا سرمایہ ڈوب گیا، آخرکار وہ دن بھی آگیا جب میرے اوپر لگنے والے تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے اور میں اپنے عہدے پر بحال ہوا۔ میں خودکو بیگناہ ثابت کرنے میں کامیاب بھی ہوا لیکن اب اس قوم کی مزید خدمت کی ہمت میری دم توڑ چکی تھی، بحالی کے چار دن بعد اپنے عہدے سے مجبور ہو کر استعفیٰ دے دیا۔ اب فیملی سمیت کینیڈا منتقل ہو چکا ہوں ۔ آج کل میں کینیڈا میں ٹرک چلا کر اپنی فیملی کی کفالت کرنے اور فلم بنانے کےلئے لیا گیا قرض اتارنے میں مصروف ہوں لیکن پاکستان سے آج بھی اتنا ہی پیار کرتا ہوں جتنا پہلے کرتا تھا۔اس طرح کے بہت لوگ ہیں جو ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے ملک چھوڑ نے پر مجبور ہیں۔اگر انصاف مل رہا ہوتا تو یہ ملک میں رہ کر ملک کی مزید خدمت کر رہا ہوتا۔ سی ایس ایس کرنے والا ہمارا یہ شہری دیار غیر میں ٹرک نہ چلا رہا ہوتا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جس طرح آپ کو اس مقام تک پہنچنے کےلئے راستے میں کانٹے بچھائے گئے تھے ایسا ہی اس شہری کے ساتھ بھی لگتا ہے کیا گیا ہے اگر اپ اپنے خلاف ریفرنس بنانے والوں کو معاف کر دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اپنے جیسے عاشر کے اس کیس کو عبرت کا نشان بنائیں۔اسے ملک میں واپس بلائیں ایسا کرنے سے عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو گا ۔ادارے ٹھیک ہو نگے ۔ جنھوں نے اس شہری پر غلط کیس بنائے جیل میں ڈالا انہیں کٹہرے میں لایا جائے انہیں سزا دی جائے۔ ان کی فلم مالک کو ریلیز ہونے دیا جائے۔ اس کے زخموں پر مریم رکھنا ضروری ہے۔ایسا کرنے سے انصاف کا بول بھالا ہو گا یاد رہے زندگی میں بار بار ایسے موقع قدرت فراہم نہیں کرتی،کچھ کر جائیں۔ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے