کالم

یوم آزادی 14اگست نظریہ پاکستان کے آئینہ میں

اگست کامہینہ شروع ہوتے ہی پاک سرزمین کے گوشے گوشے میں سبزہلالی پرچم کی بہاررقص کرنا شروع کردیتی ہے اوردیکھتے ہی دیکھتے یہ بہارہرشخص اورہرنظارے کواپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ گھر، بازار، دفاتر، گلیاں ،محلے ،اسکول، گاڑیاں ہرسمت ایک ہی بہار نظرآتی ہے سبز لہراتے پرچم کی بہار۔ کیابچہ ،کیابوڑھا ہرشخص خوشی سے جھومتا گنگناتا نظر آتاہے اورکیوں نہ جھومے کہ یہ خوشی ہے آزادی کی غلامی سے نجات کی۔ خوشی ہے ایک علیحدہ ریاست پاکستان کے وجود میں آنے کی۔ ایک طویل ،صبرآزما اورلاکھوں قربانیوں کی جدوجہد کے بعد جب پاکستان بنا اس وقت قومی پرچم کاڈیزائن اورکلرمنتخب کرنے کےلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کے اراکین میں قائداعظم محمدعلی جناح، عبدالرب نشتر اور نوابزادہ لیاقت علی خان شامل تھے۔ انگریزوں کی شدید خواہش تھی کہ پاکستانی پرچم میں یونین چیک یعنی برطانوی حکومت کا پانچواں حصہ شامل کیاجائے کیونکہ مکاروعیار بھارتی حکومت نے ایسا ہی کیاتھا اورپاکستان چونکہ اصل میں بھارت سے ہی علیحدہ ہواتھا توانگریزوں نے اس بات کو بنیاد بنایا۔ سردارعبدالرب نشترنے توفوراً ہی اس بات سے اتفاق کرنے سے انکارکردیا لیکن قائد نے اس وقت دانشمندانہ طریقے سے جواب دیا کہ ہم سوچ کربتائیں گے اوربعد میں وائسرائے تک انکارکاپیغام پہنچادیاگیا ۔وائسرائے نے قائداعظم سے طویل بحث ومباحثے کئے لیکن قائداعظم نہ مانے۔ ان کامانناتھا کہ ہم نے آزادی جبروستم اوردوسروں کی خودپراجارہ داری سے آزادی کے لئے حاصل کی ہے اور یونین چیک کے لئے حاصل کی ہے اوریونین چیک کے لئے حصہ مختص کرنامطلب انگریزوں کو خود سے بہترتسلیم کرناہے اورویسے بھی پاکستان کاوجود ایک اسلامی ریاست کے طورپر وجود میں آیا تو ایک اسلامی ملک کے جھنڈے میں دوسرے نشانات اسلام کی توہین تھے۔ انگریزوں کوانکار کے بعد ایک طویل سوچ وبچار کے نتیجے میں سبزہلالی پرچم کی تشکیل انجام پائی ۔سبز اورسفیدرنگ کے اس خوبصورت پرچم میں سبزاورسفیدرنگ کا تناسب سفیدرنگ سے کہیں زیادہ ہے۔ سبز رنگ مسلمانوں کی نمائندگی کرتاہے جبکہ سفیدرنگ اقلیتوں کی ۔ملک کے جھنڈے میں اقلیتوں کے لئے جگہ مختص کرنااس دور کے عظیم قائد کی عظیم سوچ کوواضح کرتاہے جھنڈے میں سبزحصے کے عین درمیان میں سفیدرنگ کاچاند اورپانچ کونوں والاستارہ ہے۔ سفیدچاندترقی اورپانچ کونوں والاستارہ روشنی اورعلم کوظاہر کرتاہے ۔ قومی پرچم محض ہمارا قومی جھنڈا نہیں بلکہ اس جھنڈے کے وجود کی خاطر لاکھوں جانوں کانذرانہ پیش کیاگیا اس سے پہلے ہم غلامی کے طوق میں بندھے ہوئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے