کالم

آئی ایم ایف اور ایل ڈبلیو ایم سی

rohail akbar

عید کے تینوں دن خیریت سے گذر گئے بلکہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی خوشخبری سناتے ہوئے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اس باقاعدہ طور پر جشن بھی منایا اور اب آنے والے دنوں میںبجلی بھی مزید مہنگی ہو جائیگی جس سے کھانے پینے والی اشیاءتو مہنگائی کی لپیٹ میں آئیں گی ہی وہاں پر عوام کا جینا بھی مشکل ہو جائیگا پہلے ہی لوگوں کے مالی حالات اتنے خراب ہیں کہ زندگی پر موت کو ترجیح دی جارہی ہے دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہماری معیشت کا جنازہ کس دھوم سے نکلے گا کیونکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جسکے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی ابتدائی منظوری مل گئی جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی کم ہو گیا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3ارب ڈالر مالیت کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے ابھی یہ پیسے پاکستا ن کو ملے نہیں ہیں کیونکہ یہ معاہدہ ابھی بھی آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے اگر ایمانداری سے دیکھا اور پرکھا جائے تو اس معاہدے کے بغیر ہمارا زندہ رہنا مشکل تھا یہ پیسے نہ آتے تو ہم اپنے قرضے کی قسط کیسے جمع کرواتے اور ملک کے اندورجو کھانے پینے والے معاملات ہیں وہ کیسے آگے بڑھتے اب پیسے آنے سے ترقیاتی کام بھی ہونگے جس میں کمیشن مافیا بھی اپنا حصہ وصول کریگا اسی کمیشن سے تو ہمارے سرکاری افسران کروڑو نہیں بلکہ اربوں پتی بن چکے ہیں بلوچستان میں پانی کی ٹینک سے کروڑوں روپے بھی ایک سرکاری اہلکار سے ملے تھے اور ابھی کراچی میں سیکریٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ سندھ کے گھر سے اربوں روپے کی رقم برآمد ہوئی ہے یہ سب پاکستان کے غریب لوگوں کے پیسے ہیں جو آج روٹی سے بھی تنگ آئے ہوئے ہیں یہاں ہر ادارے میں ایسے درجنوں افراد مل جائینگے جو ضمیر عباسی کو بھی چور بازاری اور لوٹ مار میں ضمیر عباسی کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے رہی بات سیاستدانوں کی وہ تو لانچوں اور ہوائی جہازوں میں مال بھر بھر کر پاکستان سے باہر لے جاتے رہے دنیا کے بیشتر ممالک میں پاکستانیوں کے اربوں روپے موجود ہیں رہی بات آئی ایم ایف کی تو وہ بلاشبہ قرضے اس لیے دیتے ہیں کہ غریب ممالک اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو سکیں اور اس قرضہ سے پاکستان اپنے موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے کےلیے مستحکم پالیسی پر عمل درآمد کرسکتاہے بشمول زیادہ مالیاتی نظم و ضبط، بیرونی دباﺅ کو جذب کرنے کے لیے مارکیٹ کا تعین شدہ زر مبادلہ کی شرح اور اصلاحات پر مزید پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں موسمیاتی لچک کو فروغ دینے اور بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے آئی ایم ایف کاابھی فلحال پاکستان کےساتھ 9ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پایا ہے جس سے پاکستان کو بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنانسنگ بھی دستیاب ہو سکے گی پاکستان کو یو اے ای سے آئندہ چند دنوں میں مزید ایک ارب ڈالر اور سعودی عرب سے بھی مزید 2ارب ڈالرملنے کی امید ہے اس معاہدے کے بعد پاکستان کو عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رکی ہوئی دوارب ڈالر کے مالیت کی فنانسنگ بھی ملنا شروع ہو جائے گی اور ساتھ ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کی تعمیر نو کیلئے عالمی برادری کی جانب سے کئے گئے امداد کی فراہمی کے اعلان پر بھی عملدرآمد شروع ہوجائے گا اس معاہدہ کی مظوری کےلیے سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کردہ کا کردار بھی لائق تحسین ہے اگرآئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کی بات کی جائے تو پی پی پی اس کھیل میں بہت آگے پائی جاتی ہے جس نے 10 بار کامیابی سے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے اگر دیکھا جائے تو 1958 وہ سال تھا جب پاکستان نے پہلی بار انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رابطہ کیا اس وقت 3 روپے کا ایک ڈالرملتا تھا جو 1965 کی جنگ میں بڑھ کر 7 روپے تک پہنچ گیا پاکستان حالت جنگ میں ہونے کے باوجود معاشی معاملات میں بہت بہتر تھا ہم قرضے وقت پر واپس کررہے تھے 1973 میں بنگلہ دیش کی علیحدگی نے ہماری کمر توڑ دی ذوالفقار علی بھٹو محض 3.42 بلین ڈالر کا قرضہ لیاجوہم وقت پر واپس نہ کر سکے جنرل ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کو ڈالر مل رہے تھے اور 2 بلین ڈالر کا قرض آئی ایم ایف کو واپس بھی کردیا۔1988 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے 2 قرض پیکج لیااور اس وقت تک ڈالر 18 روپے تک پہنچ چکا تھایہ قرضے 1990 اور 1992 تک ادائیگی کےلیے طے تھے اور پھر ملک کی سپریم کمانڈ تبدیل ہوئی 1990 میں نواز شریف پہلی بار اقتدار میں آئے اور انہوں نے لیے ہوئے دوسرے اور تیسرے قرضوں کی ادائیگی کی بجائے 1993 میں ایک بلین ڈالر کا قرض لے لیا جسکے بعد 1993 تک پاکستان 3 بین الاقوامی غیر ادا شدہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھا اور اسکے باوجود 1994 میں بینظیر بھٹو نے آئی ایم ایف سے ایک اور پیکج لینے کا فیصلہ کرلیا یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے پہلی بار قرضوں کی بجائے قرضوں پر سود ادا کرنا شروع کیا۔ پاکستان قرضوں کی دلدل کے معاشی جال میں پھنستا گیااور حکومتیںبھی بدلتی رہیں لیکن ہماری معیشت مستحکم نہ ہو سکی 1995 سے 1999 کے درمیان برسراقتدار حکومتوں نے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) سے 3 اضافی قرضے بھی لے ڈالے 1995 میں ہم 39 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا بوجھ اٹھائے کھڑے تھے اور پھر1999 میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب قرضوں کی واپسی کےلئے پاکستان تقریباً معذور ہوچکاتھا اور ہم قرض دینے والی ایجنسیوں کو پہلے سے لیے گئے قرضوں پر سود بھی ادا نہیں کر سکے مختصر یہ کہ جو صورتحال اب ہے وہی اس وقت بھی تھی اور اوپر سے ملک پر فوجی آمریت کی وجہ سے آئی ایم ایف نے قرضوں اور سود کی قسطوں کی ادائیگی میں نرمی دینے سے بھی انکار کردیا اور جن ممالک کےساتھ پاکستان تجارت کر رہا تھا ان میں سے بیشتر نے آئی ایم ایف کے کہنے پر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائدکردی اور پھر 9/11 کا واقعہ ہوگیاورلڈ ٹریڈ سنٹر میں لوگوں کی ہلاکت نے مشرف کی قسمت بدل دی امریکہ کو افغان جنگ میں اتحادی کے طور پر پاکستان سے مدد کی ضرورت تھی اور مشرف نے اس موقع کو فائدہ اٹھایا اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئیں اور مشرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک دونوں کو قرضوں کی قسطوں کو دوبارہ ترتیب دینے کےلیے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔۔۔۔۔(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے