کالم

آئی ایم ایف کاعوام پربوجھ

سابق حکومتوں نے اپنے وسائل پیدا کرنے اور ان کو بڑھانے کے بجائے قومی اداروں کو Mortgage یعنی گروی کیا ہے ۔ جس میں حکومت نے کراچی کا جناح بین الاقوامی ایئر پو رٹ2013 میں 182ارب روپے کے عوص گروی رکھ دیا ہے۔ دسمبر 2015 میں دوبارہ کراچی ایئر پورٹ کے نام پر مزید114ارب روپے اورفر وری 2016 میں پھرکراچی ایئر پو رٹ گروی رکھ کرمزید 80.4ارب روپے قرض لئے گئے۔ ساتھ ساتھ قرضوں کے حصول کےلئے مو ٹر وے اور قومی شاہراہوں کو بھی گروی رکھ دیا گیا ۔ 2014 میںحکومت نے حافظ آباد موٹر وے کو ایک ارب ڈالر کے عوض گروی کیا ۔اسی سال 2014 میں حکومت نے فیصل آباد پنڈی بھٹیاںمو ٹر وے کو49.5ارب روپے کے عوض گروی کیا ۔حکومت پہلے پشاور لاہور موٹر وے، فیصل آباد پنڈی بھٹیاں مو ٹر وے، اسلام آباد پشاور موٹر وے اور اسلام آباد لاہور موٹر وے کو گروی رکھ چکے ہیں۔اسی طرح 2006میں حکومت نے نیشنل ہائی وے کو بھی گروی رکھ چکے ہیں۔ جس میں مری مظفر آباد ڈبل کیرج وے، جیکب آباد بائی پاس ، ڈی جی خان راجن پور ہائی وے اور اوکاڑہ بائی پاس گر وی کر چکے ہیں۔پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان گروی کئے گئے ہیں۔ اگر ہم نجکاری کی ما ضی پر نظر ڈالیں تو سال 1991 سے سال 2013 تک 167 ادروں کی نجکاری تقریباً 467 ارب روپے میں کی گئی ہے۔ یہ ادارے چند کم قیمت پر بیچے گئے۔ جہاں تک نجکاری کے پیسوں کا تعلق ہے تو طے شدہ قانون اور ضابطوں کے مطابق ان رقم میں 90 فیصد رقم خا رجہ قرضوں کی ادائیگی پر اور 10 فیصد عام لوگوں کی فلا ح و بہبود پر خر چ ہونی چاہئے مگر نہ تو یہ رقم خارجہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کئے گئے اور نہ عام لوگوں کی سماجی اقتصادی اشاروںمیں کوئی تبدیلی آئی بلکہ انکے بر عکس غربت اور خارجہ قرضے مزیدبڑھ گئے۔ عمران خان کے ساڑھے 3 سالہ دور حکومت میں پاکستان کا قرضہ 29ہزار ارب سے 54 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیااور پی ڈی ایم حکومت نے اس میں مزید اضافہ کیا۔ جہاں تک قرضوں کا تعلق ہے تو یہ ہمارے کل ملکی پیداوار کا 98 فیصد ہے جو کسی ملک کے پیداوار کا 50 فیصد ہونا چاہئے۔ ایشیاءاور عالمی بینک کے مطابق پاکستا ن میں 70 فیصد یعنی 13کروڑ لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں۔ نجکاری سے مُثبت رحجان کے بجائے منفی اثر پڑا اور عام چیزوں کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ چینی، بجلی پیدا کرنے والے نجی کمپنیوں ، سیمنٹ، گندم ، ادویات، سریا ، ادویات کے منافلی گروپ اور مافیازوجود میں آئے اور وہ اپنی من مانی کرکے قیمتیں بڑھا رہے ہیں اور حکومت انکے سامنے بے بس ہے ۔ کاروبار ٹھپ ،نوکریاں اور روزگار نہیں اور آئی ایم ایف پاکستان سے مزید ٹیکس، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کی ڈکٹیشن دے رہے ہیں جس کی پاکستانیوں میں کوئی سقت نہیں ۔ 70 فیصد عوام پہلے مہنگائی کی وجہ سے علاج معالجہ چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس وقت عوام سب سے زیادہ مہنگائی برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کرپشن کیسز میں جن سیاستدانوں ، سابقہ فوجی ، سول بیوروکریٹس اور مختلف قسم کے مافیاز پر جو کرپشن ثابت ہو چکی ہے ان سے وصولی کی جائے ۔علاوہ ازیں پاکستان کے نوجوانوں کو سمندر پار بھیج کر اربوں ڈالر زرمبادلہ کمایا جا ئے ۔ اگر آئی ایم ایف کے ڈکٹیشن پر روپے کی قدر میں مزید کمی کی گئی تو اس سے پاکستا نی قرضہ مزید بڑھ جائے اور مہنگا ئی کا مزید طوفان آجائے گا۔ جہاں تک ٹیکسز کی بات ہے تو اس وقت ٹیکس تو ہر پاکستانی 17 فیصد جی ایس ٹی کی شکل میں دے رہے ہیں ۔ غریبوں پر ٹیکسوں کے بجائے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ اداروں کی نجکاری کے بجائے اداروں کومضبوط کیا جائے تاکہ مزید مناپلی گروپ اور مافیا کا تدارک کیا جائے ۔ اچھی حکمرانی پر توجہ دینی چاہئے۔اداروں کی نجکاری کے بجائے اچھی حکمرانی کو فروغ دینا چاہئے ۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے