کالم

آخر کشمیر ہی کیوں؟

کشمیر ایک خوبصورت وادی ہے جہاں قدرت نے اپنی ساری خوبصورتی جمع کر دی ہے۔ یہاں خزاں میں چنار کے درخت سرخ اور زرد ہو جاتے ہیں، اور بہار میں پھولوں کی خوشبو ہوا کو مہکا دیتی ہے۔ دریائے جہلم کی روانی دل کو سکون دیتی ہے۔ مغل باغات کی خوبصورتی، پشمینہ کی نرمی، اور کشمیری قالینوں کا خوبصورت کام، سب مل کر کشمیر کو زمین پر جنت بناتے ہی۔ کشمیر صرف ایک وادی نہیں، ایک جدوجہد کا نام ہے۔ یہاں ہر آنکھ میں آنسو، ہر دل میں درد اور ہر گھر میں قربانی کی کہانی چھپی ہے۔عالمی طاقتیں اگرچہ جنگ بندی اور معاہدوں کی بات کرتی ہیں، مگر کشمیر کا ہر فرد روز ایک نئی جنگ جیتنے اور ہارنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ جب تک مظلوم کی فریاد کو انصاف نہ ملے، تب تک کسی بھی معاہدے کا مطلب صرف کاغذی وعدہ ہی رہتا ہے۔ کشمیر بولتا ہے، تڑپتا ہے اور دنیا ابھی بھی خاموش ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، تو آخر کشمیر ہی کیوں اس تنازعے کا مرکز بنتا ہے کیوں ہر بار کشمیری عوام ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں کیوں ان کی زندگی، ان کے خواب، اور ان کا سکون ہمیشہ سیاست کی بھینٹ چڑھتا ہے۔کشمیر کی خوبصورتی صرف اس کے مناظر میں نہیں، بلکہ اس کے لوگوں کی مہمان نوازی، ان کی ثقافت، اور ان کے جذبہ محبت میں بھی ہے۔ یہ وادی صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں، بلکہ ایک زندہ دل قوم کا مسکن ہے، جو صدیوں سے امن، محبت، اور بھائی چارے کی مثال بنی ہوئی ہے۔ہر بار جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، ایک سوال ذہن میں آتا ہے: آخر کشمیر ہی کیوں؟ کیوں ہر تنازعے کی جڑ یہی وادی بنتی ہے؟ کیوں ہر بار کشمیری عوام ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں؟22 اپریل 2025کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 26 بے گناہ سیاحوں کی جانیں گئیں۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں، لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ہزاروں کشمیریوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا، اور درجنوں افراد جان سے گئے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کشمیر کسی تنازعے کا مرکز بنا ہو۔ 1947 سے لے کر آج تک، کشمیر تین جنگوں، متعدد سرحدی جھڑپوں، اور بے شمار سیاسی تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ ہر بار جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تلخی آتی ہے، اس کا خمیازہ کشمیری عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، جبکہ پاکستان اسے ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ متضاد موقف ہی اس مسئلے کو پیچیدہ بناتا ہے۔اقوام متحدہ نے بارہا دونوں ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کریں۔ تاہم، ہر بار یہ مطالبہ نظرانداز کیا جاتا ہے، اور کشمیری عوام ایک بار پھر تنازعے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کب تک کشمیری عوام کو اپنی شناخت، آزادی، اور امن کے لیے قربانیاں دینی پڑیں گی؟ کب تک یہ وادی خون سے رنگین ہوتی رہے گی؟ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر کشمیری عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ ایک ایسا حل تلاش کیا جائے جو نہ صرف دونوں ممالک کے لیے قابل قبول ہو، بلکہ کشمیری عوام کی خواہشات کا بھی احترام کرے۔آخری بات :آخر کشمیر کیوں؟ کیونکہ کشمیر وہ درد ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں دھڑکتا ہے، وہ زخم ہے جو ہر مسلمان کی غیرت کو جھنجھوڑتا ہے۔ یہ صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ ایک قوم کی شناخت، ان کی قربانیاں، اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم صرف نعرے نہ لگائیں، بلکہ کشمیر کی آواز کو دنیا تک پہنچائیں۔ اپنی دعاں، اپنے قلم، اپنی میڈیا، اور اپنی پالیسی کے ذریعے کشمیر کے سچے سفیر بنیں۔ ہر سطح پر کشمیریوں کی حمایت کو نہ صرف اخلاقی بلکہ عملی طور پر ثابت کریںکیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہم سے سوال ضرور کرے گی
جب کشمیر جل رہا تھا تم کہاں تھے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے