دس مارچ کو تین بجے سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ سیشن میں جانے کا اتفاق ہوا ، اس روز ملک عثمان حیدر اعوان اور سید منظور گیلانی کی قیادت میں ہم دو بجکر تیس منٹ پر ایوان میں پہنچے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایوان میں اور گیلری میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ سینٹر و ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کامران مرتضیٰ نے ہاتھ بھی ملائے اور ہمیں ویلکم بھی کہا ۔ اس سیشن میں ایم این اے اسلام آباد انجم عقیل نے بھی اپنی مسکراہٹ سے ہمیں ویلکم کیا ۔ اسمبلی ہال میں آج صرف ایک ہی شخص نے بولنا اور اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا۔باقی سب نے انہیں سننا تھا۔یہ شخصیت ملک کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ہے جنہیں پاکستان کا نیلسن منڈیلا بھی کہا جاتا ہے ۔ آج آپ کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری اور بیٹی آصفیہ بھٹو زرداری بھی اس موقع پر موجود تھی۔اسمبلی کا سیشن جب شروع ہوا تو اسٹیج پر یوسف رضا گیلانی چیرمین سینٹ ان کے برابر میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور آصف علی زرداری صدر پاکستان مہمان خصوصی اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ سب سے پہلے تلاوت قرآن پاک اور اس کا ترجمہ پڑھا گیا۔پھر نعت شریف کے بعد پاکستان کا قومی ترانہ جسے سب نےکھڑے ہو کر سنا۔ ہمارے سامنے دائیں جانب اپوزیشن کی کرسیاں تھیں جو کاروائی کا آغاز ہونے تک سب خالی تھیں لیکن قومی ترانے کے فوری بعد جب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے آصف علی زرداری کو پارلیمانی سال آغاز کے موقع پر دعوت خطاب کے لیے کہا تو فرنٹ دروازے سے اپوزیشن کے ایم این ایز اور سینٹر ہاتھوں میںپمفلٹ اٹھائے اور نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان میں داخل ہونے۔ پھرجتنی دیر تک صدرکا خطاب جاری رہا یہ پی ٹی آئی والے مسلسل احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی اور ڈسک بجاتے رہے۔ جے یو ایف والوں نے احتجاج میں حصہ نہیں لیا۔جبکہ پی ٹی آئی کچھ تو یہ پمفلٹ لےکر غیر ملکی سفارت کاروں کے سامنے آ کر انہیں دکھاتے رہے۔ لہراتے رہے۔ پی ٹی آئی کے ایم این اے مروت نے احتجاج میں حصہ نہیں لیا۔ اپنی سیٹ پر بیٹھے رہے جبکہ حکومتی ممبران وزیراعظم شہباز شریف، صوبائی چیف منسٹر وفاقی وزرا ، اٹارنی جنرل منصور حیدر اعوان نے ہیڈ فون لگا کر صدر کی تقریر سنتے رہے۔ کیا تھا جوہیڈ فون کی سہولت یہاں دیکھنے والے مہمانوں کو بھی میسر ہوتی ۔ دیکھنے والے نہ تو صدر آصف علی زرداری کر سن پائے اور نہ ہی اپوزیشن والوں کو سن پائے کہ کیا احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے احتجاج کا ایک ہی مقصد لگا کہ صدر صاحب تقریر نہ کر پائیں مگر ایسا کرنے میں نا کام رہے ۔ اپوزیشن نے مچھلی منڈی کا ماحول بنائے رکھا۔ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ لیکن ان میں اور عام مزدوروں کے احتجاج کرنے میں فرق ہونا چاہیے تھا ۔ یہ فرق آپ کے ایکشن سے نظر آتا ہے۔ ان کے ایکشن سے لگ رہا تھا کہ ان کے دماغ خالی ہیں ۔مزدوروں کے احتجاج اور انکے احتجاج میں کوئی فرق نہ لگا۔بہترین احتجاج یہ تھا کہ کالی پٹیاں باندھ کر آتے۔ پمفلٹ لے آتے اور خاموش رہتے۔ اس موقع پر ماضی میں بھی ایسے ہی احتجاج کیا کرتے تھے اور آج بھی ایسا ہی کیا گیا۔ کچھ نہیں بدلا۔اس بار حکومتی ممبران ضرور تھوڑے سے بدلے بدلے دکھائی دیئے۔ یہ کہ سب نے صبر سے کام لیا خاموش رہے۔ اس اجلاس کے اگلے روز اسی ایوان میں اپوزیشن والوں کی صدر کے خطاب پر تقریریں کرنا تھیں۔لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر کی تقریر پر یہ پوائنٹ نوٹ کرتے رہتے مگر شور کے سوا انہوں نے کچھ نہ کیا ہاں مہمانوں کو بور ضرور کیا۔اب یہ اخبارات کو پڑھ کرہی تقریریں کریں گے۔عوام انہیں اس ملک کی کریم سمجھتے ہیں کہ یہ اسمبلیوں اور سینٹ میں جا کر ان کے مسائل پر بات کریں گے حل کریں گے مگر یہ ایسے رویے یہ رکھتے نہیں۔ انہیں شائدپتہ ہی نہیں ہے کہ ہم اسمبلیوں میں کیا کرنے آتے ہیں۔لگتا ہے ان کو عوام کے ایشیوز کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ صدر صاحب کو پتہ تھا کہ اس ملک کی قومی زبان اردو ہے۔ آئین اور قانون بھی یہی بتاتا ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا صدر صاحب کا خطاب اردو میں ہوتا۔ کم ازکم اس ملک کا عام شہری تو سمجھ پاتا کہ صدر صاحب نے کیا فرمایا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ انگلش کو بین کر دیں اس سے نفرت کریں۔انگلش ضرور سیکھیں بولیں لیکن جب خطاب کرنا ہوتو اپنی قومی زبان میں کیا کریں۔ ایسا کرنے پر اپنے اور غیر عزت بھی دیں گے۔ جو اس سیشن اجلاس میں دیکھا ایسی دیکھنے کی امیدبالکل نہ تھی اس شور شرابہ میں شور کرنے والوں کی آواز سنائی نہ دی کہ کیا احتجاج کر رہے ہیں اور صدر صاحب کی آواز اس شور سے سنی نہ جا سکی دب کر رہ گئی۔ اس ایک دن کے اخراجات لگائیں تو ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہوئے ہونگے۔ بس کہہ سکتے ہیں ملک میںجمہوریت کی گاڑی چل رہی ہے۔ اسمبلی میں بھی اس گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی اور ایسا بلوچستان میں دہشت گردوں نے گاڑی کو دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالا۔ دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس میں دہشت گردوں نے گاڑی کو اغوا کیا۔آج تک دنیا میں کسی نے گاڑی کو اغوا نہیں کیا تھا۔ اس دہشت گردی میں انٹر نیشنل طاقتیں ملوث ہیں۔ چالیس سال قبل مشہور سیاسی لیڈر ولی خان مرحوم نے اس وقت کہا تھا جب امریکا اپنا اسلحہ گولہ بارود افغانستان میں چھوڑ کر گیا تھا۔ ولی خان نے کہا تھا یہ تمام اسلحہ پاکستان میں دہشت گرد استعمال میں لائیں گے۔ یہ اب سب کچھ سچ ثابت ہورہا ہے ایسا ایک سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ اگر ہماری فورسز ہماری عدلیہ ماضی میں سیاسی رول ادا نہ کرتے تو جو کچھ آج آپ دیکھ رہے ہیں وہ نہ دیکھ رہے ہوتے۔ اب بھی ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔ محب الوطن سیاسی شخصیات کی کمی نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں سینٹ میں سینٹر مسرور احسن سے اس ایشوز پر بات کرتے سینٹ میں سن کر سر فخرسے بلند ہو گیا۔یہ وہ سیاسی شخصیت ہے جنھوں آمر کے دور حکومت میں ماریں کھائیں، جیلیں کاٹی۔یہی وجہ ہے ان کے دلوں میں محنت کش مزدور بستے ہیں۔آج بھی ایک مزدور آصف کی لاہور ہائیکورٹ میں گیارہ سال تک کیس کا فیصلہ نہ ہونے پر خودسوزی کرنے والے پر اسوقت آواز اٹھائی جب سینٹ اور اسمبلی میں خاموشی تھی۔ اس خاموشی کو سینٹ میں توڑنے والی شخصیت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کراچی سے سینٹر محترم مسرور احسن کی ہے۔ جھنوں نے کراچی سٹیل مل کے مزدوروں اور آصف مزدور لیڈر کی خودسوزی پر سینٹ میں بات کی۔ اچھا لگا کہ کوئی تو ایسی سیاسی شخصیت ہے جو مزدوروں کسانوں کی بات کرتی ہے۔ لویو مسرور احسن بھائی۔ اسوقت اسمبلی اور سینٹ میں سب کو مسرور احسن جیسا رول ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔تاکہ مزدوروں کی محنتوں سے فیکٹریاں کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا رہے۔یاد رہے دہشتگردی کا مقابلہ کسی ایک ادارے نے نہیں ساری قوم نے ملکر کرنا ہے۔ یہ دشمن کی پھیلائی ہوئی آگ ہے۔ انشااللہ ہم اس اگ پر سب مل کر قابو پا لیں گے انشااللہ ۔پاکستان زندہ باد۔