آپریشن” بلیو اسٹار“جو1984میں امرتسر میں سکھوں کی سب سے مقدس عبادت گاہ ”گولڈن ٹیمپل“ پر بھارتی فوج کے حملے کا کوڈ نام تھا، سکھ برادری کے خلاف ریاستی سرپرستی میں بھارت کی دہشت گردی کا ایک کھلا مظاہرہ تھا۔ اگرچہ ”آپریشن بلیو سٹار“سے پہلے ہی بھارت بھر میں سکھوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری تھیں،تاہم امرتسر میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ بھارت میں اس طرح کی خلاف ورزیوں اور سکھوں کی منظم نسل کشی کا باضابطہ آغاز تھا۔آپریشن بلیو سٹار2جون 1984کو شروع کیا گیا تھا۔ بھارتی فوج نے ٹینکوں اور توپ خانوں کی مدد سے 2اور 10جون 1984 کے درمیان گولڈن ٹیمپل پر حملے کے دوران یاتریوں سمیت ہزاروں سکھوں کا قتل عام کیا۔سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ کی بے حرمتی کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 39سال گزرجانے کے باوجود آپریشن بلیو اسٹار کے متاثرین اور سکھ کش فسادات کے دوران مارے گئے افراد کے اہلخانہ ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔سکھ لیڈروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا اچھا سبق ہے۔ بھارت نے تقسیم کے وقت سکھوں کو سبزباغ دکھا کر اورجھوٹے وعدے کرکے اپنے ساتھ ملایا تاہم سکھوں کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیاہے۔چنانچہ سکھ رہنما ماسٹرتاراسنگھ نے 28مارچ1953ءکو کہا:” انگریزچلاگیالیکن ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں ، صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے سفید تھے اب کالے آگئے ہیں۔جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا کر ہمارے پنتھ، ہماری آزادی اور ہمارے مذہب کو کچلا جا رہا ہے۔“ دنیا جانتی ہے کہ اندراگاندھی نے اپنے دور میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت سکھوں کے انتہائی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی ، اس میں 10ہزارسکھ زائرین کو ہلاک کردیاگیاتھا۔ جبکہ31اکتوبر 1984ءکو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت ’انڈین نیشنل کانگریس‘ نے سکھوں کی نسل کشی کی منظم مہم شروع کی گئی۔ اس مہم میں سکھوں کو جانی نقصان کا سامنا بھی ہوا، ان کے گھر بار تباہ وبرباد کردئیے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے ، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے۔ہزاروں سکھ قتل کردئیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس مہم میں 30ہزار سے زائد سکھ قتل کئے گئے۔ان میں سے زیادہ تر بے بس تھے جن کو اپنے گھر والوں یا محلے والوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔سکھ رہنما اور کارکن آپریشن بلیو سٹارکو سکھوں کا”ہولو کاسٹ“سمجھتے ہیں اور وہ اپنے عظیم رہنما جرنیل سنگھ بھندراوالہ کے قتل کو بھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، جنہوں نے سکھوں کو بھارتی سامراج کے خلاف بیدار کیا۔بھارتی حکام نے آپریشن بلیو اسٹار کے دوران سکھوں کے خلاف کیے گئے بہیمانہ جرائم کو چھپانے کے لیے میڈیا پر سخت پابندیاں عائدکررکھی تھیں۔ آپریشن بلیو سٹارنہ صرف سکھوں کے قتل عام بلکہ ان کے مقدس ترین مذہبی مقام کی بے حرمتی کے لیے ایک دانستہ اقدام تھا، جس نے سکھ برادری کی نفسیات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ گولڈن ٹیمپل پر حملے کے خلاف بطور احتجاج بہت سے سکھوں نے سرکاری نوکریوں سے استعفی دیا اور بھارتی حکومت سے ملنے والے اعزازات واپس کردیے۔اپنے مقدس ترین مقام پرحملے کے بعد ہر سکھ کو یقین ہو گیا کہ بھارت کے ساتھ ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے اور اس طرح سکھوں نے خالصتان کے نام پر ایک ”علیحدہ وطن “حاصل کرنے کے لیے اپنی تحریک کو تیز کر دیا۔80ء اور90ءکے عشروں میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر 90 فیصد سکھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیاتھا، بعدازاں انھوں نے اپنے گھرانے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا۔ وہ سکھ نوجوان بھی یہاں آگئے جنھیں بھارت میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرکے بیرون ملک مقیم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اب بیرون ملک مقیم یہ سکھ پورے جوش وخروش سے ’خالصتان ریفرنڈم ‘ کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔ خالصتانی تحریک کے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ پوری دنیا میں اس کے ماننے والوں کی تعداد دوکروڑ 80 لاکھ ہے۔ دنیا میں اس قدر بڑی آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کی تعداد بھارت کی آبادی کا محض 1.8فیصد ہے۔جن کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں آباد ہے۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران اپنے وژن اور اہداف میں بہت واضح ہیں۔ انھوں نے خالصتان کا مکمل نقشہ تیار کرلیاہے ، اس کے قیام کے بعد ممکنہ چیلنجز کا بھی انھیں احساس ہے اور ان کا حل بھی سوچ لیاہے۔ انہیں احساس ہے کہ خالصتان چہار اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہوگا۔
ممکنہ مملکت خالصتان کے ساتھ سمندر نہیں لگتا۔ ایسے میں اس کی معیشت کا کیاہوگا؟ خالصتانی ذمہ داران کاخیال ہے کہ پنجاب ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہوگا۔ سمندرکا کنارا کامیاب ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتا اور سمندر کا کنارا نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ ریاست ناکام ہوگی۔خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایک علیحدہ وطن کا یہ خیال جون میں گولڈن ٹیمپل کے قتل عام کی ہر برسی پر پھر سے تاہ ہوتا ہے۔