کالم

اب مراعات یافتہ طبقہ قربانیاں دیں

وطن عزیز تحفے میں نہیں ملا بلکہ طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں سے ملا ۔ برصغیر پاک وہند کے بٹوارے کے وقت لاکھوں خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، لاکھوں افراد قتل ہوئے، لاتعدادلوگ مضروب ہوئے ،ہزاروں خواتین کی عصمت دری ہوئی، لوگوں نے بھوک سمیت متعددصعوبیتں جھیلیں ۔ 75 سالوں کے بعد بھی ان لوگوں کو بنیادی سہولیات نہ ملیںتو پھر قصور کس کا ہے؟عصر حاضر میں تقریباً ہر شخص نالاں و پریشان ہے ۔ ملک میںغیر یقینی صورت حال ہے، معیشت سمیت سب درست سمت میں نہیں چلے رہے ہیں ۔ان حالات کے ذمہ داروہ سب ہیں جن کے پاس اختیار ات تھے اور ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی روش میں تبدیلی لائیں،اس کےلئے قربانیاں دینی کی اشد ضرورت ہے ۔ عوام 75 سالوں سے قربانیاں دے رہی ہے لیکن حالات نہیں سدھر رہے ہیں تو کیوں نا، اب مراعات یافتہ طبقہ قربانیاں دیں۔اگر مراعات یافتہ طبقہ قربانی نہیں دی گا تو وقت اور حالات قابو سے باہر ہوجائینگے تو پھر تمام تدبیریں الٹ ہوجائیں گی ۔ موجودہ صورتحال کو سمجھنے کےلئے محلات اور دفاتر سے باہر نکلنا ہوگاکیونکہ محلات اور دفاتر کے اندر سے باہر کے حالات کابخوبی اندازہ نہیں ہوسکتا۔ اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ اور سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے کیونکہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کو مزید تجربات سے قطعی پرہیز کرنا چاہیے،عدلیہ کو بھی انصاف فراہمی اور میرٹ پرفیصلوں میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کےلئے دفن کرنا چاہیے ۔ سیاستدانوں کو اپنی سیاست ، پارٹی اور ذاتی مفادات کی بجائے ملک کے مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ملک کیلئے چند اقدامات اٹھانے ناگزیز ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جتنے سیاستدانوں ، جنرلوں ، ججوںاور بیوروکریٹس کی دولت ملک سے باہر ہے ،ان کو واپس لے آئیں۔سب کو ملک کے مفادات کےلئے آخری مرتبہ این آر او دینا چاہیے ،ملک میں دولت واپس کرنے والے سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس دولت سے صنعت لگانے والوں کو پانچ سال ٹیکس چھوٹ بھی دینی چاہیے،سب کو موقع دینا چاہیے،اس کے بعد جس کی بھی جائےداد ملک سے باہر ہو،ان پر عوامی عہدہ دینے کی پابندی ہونی چاہیے اور اس کو کسی قسم کے مراعات نہیں دینے چاہئیں ۔ اقوام متحدہ ، تمام عالمی اداروں اوردنیا کے تمام ممالک کے حکمران اور عدالتیں جس فرد نے بھی ناجائز دولت کسی بھی ملک میں رکھی ہو ،اس کے اکاﺅنٹ منجمد اور جائیداد ضبط کریں،اس کی دولت متعلقہ ملک میں واپس بھیج دیں۔ کوئی ملک کسی بھی شخص کی ناجائز دولت نہ رکھے ،اگر کوئی ملک کسی بھی شخص کی ناجائز دولت رکھے گا تو اس ملک پر پابندی لگنی چاہئیں اور اس ملک کاشمار چور،منی لانڈرنگ اور بلیک منی کرنے والوں کی فہرست میں ہوناچاہیے اور ایسے ملک کو جرائم پیشہ افراد کا سرغنہ سمجھنا چاہیے۔اگر ادنیٰ ملازم یا مزدور اپنی جیب سے پٹرول ، بجلی ، گیس ، فون ، علاج، سیکورٹی، گھر ، گاڑی اور دیگر اخراجات کرسکتا ہے تو سیاستدان ، جج، افسر اپنے جیب سے یہ اخراجات کیوں نہیں کرسکتے ہیں؟ لہٰذا پٹرول ، بجلی ، گیس ، فون ، علاج، سیکورٹی، گھر ، گاڑی اور دیگر مراعات کسی کوبھی نہیں ملنی چاہئیں۔ ان مراعات کے سب سے زیادہ حق دار ادنی ملازمین اور مزدور ہیں۔ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے لہٰذا صدر، وزیراعظم ، گورنرز، وزرائے اعلیٰ ، وفاقی و صوبائی وزرائ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلیز اور سینیٹ تنخواہ اور دیگر مراعات نہ لیں۔ سرکاری اخراجات پر دعوتوں ، ظہرانوں اور عشائیوں پر پابندی ہونی چاہیے ۔ معیشت اور اہم قومی منصوبوںپر سیاست کرنےکی پابندی ہونی چاہیے۔اہم خارجہ امور اور سنجیدہ معاملا ت پر بھی سیاست کرنے پر قدغن ہونی چاہیے ۔ بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات سمیت تمام توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں واضح کمی کرنی چاہیے ۔ پراپرٹی کے کاروبار پر مکمل پابندی ہونی چاہیے کیونکہ اس کاروبار کی وجہ سے ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے ۔ پراپرٹی کاروبار کی وجہ سے ملک کا زرخیززرعی رقبہ بہت کم ہوچکا ہے ، ۔ ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ آبادی اور ضرورت کے مطابق ہاﺅسنگ اسکیمیں و مکانات تعمیر کرے اور نئے شہربسائے لیکن ہاﺅسنگ اسکیمیں، مکانات وغیرہ زرعی زمینوں پر قطعی نہ بنائیں۔مستقبل میں دنیا میں غذائی قلت کا بحران مزید سنگین ہوگا۔پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے اپنا سرمایہ صنعتی شعبے میں لگائیں۔ سیلابوں سے بچنے کےلئے چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے چاہئیں، ڈیموں سے سستی بجلی پیدا ہوگی اور فصلوں کےلئے وافر مقدار میں پانی میسر ہوگا۔ ڈیموں سے صنعتوں اور زراعت میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔گلیشیرز تیز ی سے پگھل رہے ہیں لہٰذادرجہ حرات اور آلودگی کو کم کرنے کےلئے اداروں، گھروں، موٹرویز، سڑکوں، دریاﺅں اور نہروں کے کنارے درخت لگانے چاہیں ۔ ملک بھر میں صاف و شفاف بلدیاتی الیکشن کرانے چاہئیں ،گلیاں ،نالیاں ، بجلی ، گیس ،پانی ،صفائی، تعلیم ، صحت سمیت سب کام بلدیاتی اداروں کے سپرد کرنے چاہئیں۔ایم این ایز اور ایم پی ایز وغیرہ کے پاس فنڈز نہیں ہونے چاہئیں ، یہ صرف قانون سازی کریں۔ دوہری شہریت کا مذاق بھی بند ہونا چاہیے ۔ دوہری شہریت کے افراد کو عوامی عہدہ نہیں دینا چاہیے۔ کرپشن ناسور ہے،اس کو جڑ سے ختم کرنے کےلئے سخت سزا ہونی چاہیے۔ رضاکارانہ طور پر ملک سے باہر دولت واپس لائی جائے اور اشرافیہ مراعات نہ لیں تو ہمارا ملک ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے، علاوہ ازیں وقت کا تقاضا ہے کہ سیاست نہیں،ریاست پر توجہ دینی چاہیے یقینا وطن عزیز پاکستان دنیا کا امیرترین ، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے