کالم

اب کی بار بڑوں کو قربانی دینا ہو گی

صدیوں پر پھیلی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں آپ دیکھیں گے کہ قوموں کی زندگی میں بڑے بڑے خوفناک بلکہ قیامت خیز واقعات کی کہانیاں موجود ہیں قحط آئے خشک سالی ہوئی سیلاب زلزلے جنگیں اور پتہ نہیں کیا کیا ہوا تاریخ بتاتی ہے کہ ان واقعات اور سانحات میں جہاں عام آدمی نے قربانیاں دیں وہاں ان کے حکمرانوں نے بھی اپنی جرات دلیری اور عوام دوستی میں دلیرانہ فیصلے کرکے نہ صرف اپنے ملک و قوم کو پھر سے زندگی کی راہ پرڈال لیا بلکہ پہلے سے زیادہ ترقی و خوشخالی لاکر اقوام کی اگلی صحفوں میں کھڑے نظر آئے۔دنیا میں سب سے بڑا المیہ جنگ ہے جو اپنے جلو میں تباہی وبربادی لاتی ہے۔آپ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے واقعات پڑہیں معلوم ہوگا کہ بہادر جرنیلوں نے اپنی ذہانت اور مضبوط فیصلوں سے اپنے سے بڑی طاقتوں کو شکست دیکر فتح کے جھنڈے گاڑھے۔آپ جاپان جرمنی ایسے دیگر ممالک کی تاریخ دیکھیں جو جنگوں میں اجڑ چکے تھے لیکن بہترین عوامی قیادت نے اپنی پالیسیوں منصوبوں اور کاموں سے ایسے اقدامات اٹھائے کہ وہ اجڑی پجڑی قومیں پھر سے آباد ہو کر آج دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں۔خود وطن عزیز کو دیکھیں ہم نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوجی طاقت کا مقابلہ کیا،بڑے بڑے سیلاب اور زلزلے دیکھے لیکن ہم ایک زندہ قوم تھے اور دنیا ہماری ترقی و خوشخالی کی مثالیں دیا کرتی تھی۔ہمارے حکمران سیاسی جماعتیں اور رہنما،ہمارے جرنیل ہماری مسلح افواج سرکاری ادارے اور ان کو چلانے والے بیوروکریٹ سبھی ملک وقوم کی ترقی وخوشخالی کیلئے مصروف عمل تھے۔آپ جمہوریت اور آمریت سے ہٹ کر دیکھیں اگر ہماری جمہوری سیاست میں پینتیس سال یا اس سے کچھ کم عرصہ فوجی اقتدار آیا تو اس میں عام آدمی کو اشیائے خوردونوش سے لیکر کاروبار روزگار تخفظ اور ترقی میں اسانیاں بھی تھیں۔ملکی حالات کو سیاست اور سیاستدانوں نے اس نحج پر پہنچا دیاہے کہ فوج کو گالی نکالنا اور ان پر الزامات لگانا ایک فیشن ہوچکا ہے بلکہ اب تو ہمارے بعض سیاستدان فوج کو گالی نکال کر اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنے میں کوئی مضائعقہ نہیں سمجھتے جبکہ کوئی لکھنے والا اگر فوج کی حمایت میں چند لائنیں لکھ دے تو اسے جی جی بریگیڈ کا شکار ہونا پڑتا ہے لیکن غور سے دیکھیں تو آج کے بہت سے سیاسی رہنما اور انکی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی حوالے سے گیٹ نمبرچار کی نرسری سے نکلتی نظرآتی ہیں۔اگر امریت نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے تو جمہوریت نے بھی ایسے کوئی دودھ کی نہریں نہیں بہا دیں کہ ہم اس میں نہانے لگیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آج زرعی ملک ہونے کے باوجودگندم کا آٹا لائنوں میں لگ کر لے رہے ہیں۔چاول دالیں اوردیگر اشیائے خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے باہرہے۔ گزشتہ دس مہینوں میں لاکھوں لوگ بہتر اور محفوظ مستقبل کے لئے ملک چھوڑ چکے ہیں۔انڈسٹری بند ہونے کے قریب ہے روزگارملتا نہیں بھوک افلاس مہنگائی اور بے روزگاری کے جنات ہمارے منڈیروں پر ناچ رہے ہیں۔کسی بھی سرکاری ادارے بشمول ریل، پی آئی اے،سٹیل ملز،واپڈا،بلدیات وغیرہ کو کھول کر دیکھ لیں اربوں روپے کی کرپشن اور بے ضابطگیاں ہیں۔بعض واقعات میں سرکاری ریکارڈتک جل جاتا ہے۔حالیہ سیلاب کو گزرے عرصہ گزر چکا ہے اور اب نئے سیلاب کی آمد آمد ہے لیکن لاکھوں سیلاب زدگان سڑکوں کیمپوں اور خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔کوئی شک نہیں کہ پاکستان جمہوری عمل کا نتیجہ ہے اور کوئی شبہ نہیں کہ یہ کسی جرنیل یا فوجی عمل کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آیالیکن کیا فوجی ہمارے بھائی بیٹے نہیں اورکیا فوج کو لانے بلانے اقتدارمیں لانے کے لئے ہم جمہوری خود ایسے حالات پیدانہیں کرتے ان باتوں کے لئے ایک کالم نہیں بلکہ بہت سی کتابیں لکھی جانے کی ضرورت ہے اور انہیں پڑہنے اورسوچنے کے لئے ہمیں اپنے سیاسی وجود سے نکل کر ایک عام آدمی کی حیثیت سے برداشت کرنے کی اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور کیا موجودہ حالات میں جبکہ ہم چند ارب ڈالروں کے لئے بھیک مانگنے پرمجبورہیں۔ہمیں قرض دینے والے ادارے کی اس رپورٹ کو نہیں پڑھناچاہئے کہ جس میں انہوں نے ہم پرراج کرنے والے راجوں مہاراجوں کو اپنی عیاشیاں ختم کرنے پروٹوکول کم کرنے اندرونی اوربیرونی دوروں پر اخراجات کم کرنے سرکاری محکموں میں ایک کی جگہ دس دس پیاروں کو لاکھوں روپے کے نوکریاں دان کرنے کی حوصلہ شکنی کا نہیں کہااور کابینہ کے حجم کو چھوٹا رکھنے رشوت اقرباپروری کک بیکس اورکمشن جیسے گھنانے کاموں کو ختم کرنے اور ایسی اوربہت سی بیماریوں سے بچنے کی باتیں نہیں کیں لیکن ہمارے حکمرانوں کوریونیواکٹھا کرنے کے لئے صرف عوام نظرآتے ہیں۔پیٹرول کی قیمتیں بڑھادیں گیس اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے کردیں ریل کاٹکٹ مہنگاکردیں اورعام آدمی کے نحیف جسموں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیں کیونکہ آئی ایم ایف کا حکم ہے ٹھیک ہے عوام کو قربانی دینا ہے لیکن بڑی قربانی شائداب بڑوں کو دینے کاوقت آپہنچاہے آوازیں اٹھنا شروع ہوگیں ہیں۔چھوٹے چھوٹے جلسے جلوس اورمظاہرے بھی ہونے لگے ہیں لیکن ہمارے حکمران اور اپوزیشن انتخابات جلد دیر سے ہونے کے نقطے پر اسقدر الجھی ہوئی ہے کہ عام آدمی اس میں پس کر رہ گیا ہے۔جمہوریت چلانی ہے تو جمہوری اصولوں پر عمل کرکے اپنی بجائے عوام کے لئے فوری اورموثرپالیسیاں لانا ہوں گی ورنہ جمہوریت کو بدنام کرنے سے گریز بھی کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے