کرپشن کیوجہ سے کچھ ادارے تباہ ہو گئے، کچھ ہونےوالے ہیںاور باقی پر کام جاری ہے مگر افسوس کہ ان کے زوال پذیر ہونے کی وجوہات کا سدباب کیا جاتااور ان تمام تر محرکات کا جائزہ لیا جاتا،جس کے سبب یہ ادارے تباہ کاری کاشکا ر ہورہے ہیں پر کم ہی روشنی ڈالی جارہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کرپشن کے ناسور کو حقیقی طور پر ختم ہی نہیںکرنا چاہتے ،یہی وجہ ہے کہ کرپشن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ۔یہی وہ چیز ہے جو کرپٹ افراد کا حوصلہ بڑھانے کا باعث بنی ہوئی ہے۔اداروں کے منتظمین صاحبان اداروں کو نااہل افراد کے سپرد کر کے خود گہری نیند سو چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کرپٹ افراد نے اپنے اپنے محکموںمیں اندھیر نگری مچا رکھی ہے اور اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا ہے ۔ سائلین مایوس ہوچکے ہیں۔اگر کسی کا کام نہیں ہو رہاہے تو اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نظر نہیں آتاہے۔یوں وہ کام جو فور ی ہونے چاہئیں، مہینوں لٹکے رہتے ہیںاور اگر یہی کام کسی اہلکار کی مٹھی گرم کرکے لیا جائے تو مہینوں کا کام ہفتوں اورہفتوں کاکام دنوں میں ہوجاتا ہے ۔ لوگ بھی آخر کیا کریں،جب ایک صریحاً جائز کام بھی نہیں ہو پا رہا ہوتا ہے توپھرتکلیف اورپریشانی سے بچنے اور وقت بچانے کی غرض سے ان افراد کے ایجنٹس حضرات کے ذریعے کام کروانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔آپ بلدیہ کو ہی لے لیں،جس میں کرپٹ افرادنے جنم پرچی کی نارمل اور لیٹ اندراج فیس میں میںنرالے انگ سے ، نرالے ڈھنگ سے اپنے ہی قائم کردہ من موجی ریٹ مقرر کر رکھے ہیںاور عوام کو مختلف حیلوں بہانوں سے رقم بٹورنے کےلئے ریکوریمنٹ کے نام پر وقت ضائع کروایا جاتا ہے تاکہ اس پریشانی سے بچنے کےلئے سائل بلدیہ کے کرپٹ افراد کی فرضی مقررکردہ فیس ان کے منہ پر دے مارے اور یہ کہ نارمل، لیٹ اندراج برتھ سرٹیفکیٹ کا حصول ممکن بنا سکے ،جس ادارے کی کارکردگی پہلے ہی عوام کی نظروں میں کھٹکتی ہواور سوالیہ نشان بنی ہوئی ہو،جو عوام کو صحت و صفائی کے حوالے سے کوئی قابل قدرخدمات فراہم نہ کر سکی ہو،کم ازکم اتنا تو کر سکتی ہے کہ مہنگائی اوربے روزگاری کے چنگل میں پھنسی عوام کو نارمل اور لیٹ اندراج فیس میں ہی ناجائز حصہ نہ بٹورے تاکہ عوام کی نظر میں بلدیہ کا کچھ بھرم تو باقی رہ جائے ۔ ٹھیکیداری نظام کے کیاکہنے، منظور نظر افراد کو نوازا جاتا ہے جو ناقص میٹیریل استعمال میں لاتے ہیںجس کا رزلٹ چند دنوں بعد عوام کے سامنے ٹوٹی پھوٹی گلیاں ، سولنگ، ناکارہ سیوریج ،ڈرینج سسٹم،خستہ حال ندی نالوں اور سڑکوں کی شکل میںنمودار ہوتا ہے مگر کوئی پوچھنے نہیں ہے ۔جنہوں نے پوچھنا ہوتا ہے وہ اپنا حصہ بٹور کر نو دو گیارہ ہو جاتے ہیںمگر اس کا عذاب مصیبتوں ماری عوام کو اُبلتے گٹروں ،ناکارہ سیوریج،خستہ حال سولنگ ، نالیوںاور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی شکل میں سہنا پڑتا ہے ۔ پولیس کو ہی لے لیں،عوام کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے مگر ہر جگہ ڈکیتی ، راہزنی کی وارداتیں عام ہیں ،سٹریٹ کرائم کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے مگر کنٹرول نہیں پایا جا رہاہے ۔عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔اگر کوئی اپنی جائز شکایت بھی لیکر پولیس اسٹیشن جائے تو رپورٹ لکھناتو دور کی بات ،سننا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں۔کچھ افراد تو قانونی پیچیدگیوں،خوامخواہ کے جھنجھٹ سے چھٹکارہ پانے اور پولیس کے ڈر کی وجہ سے تھانے ہی نہیں جاتے ہیں ۔ مختلف رونما ہونےوالے واقعات میں بےگناہ افراد کی گرفتاریوں سے پولیس پر سے عوام کا اعتماد اور یقین مکمل اٹھ سا گیا ہے اور وہ پولیس کے ناروہ رویے پر شکوہ وشکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسے میں پولیس عوام کے اندر اپنا مورال بلند کرنے کےلئے بہتر اقدامات کرے ، ڈکیتی ،راہزنی،کی روک تھام کےلئے عملی اقدامات کرے اور عوام کی مسیحا ہونے کا صحیح ثبوت فراہم کرے۔پولیس چیک پوسٹوں پرمعزز شہریوں کو اپنے کام ، کاروبار ، گھرجاتے کبھی سیکیورٹی چیکنگ کے نام پر پبلک ٹرانسپورٹ سے اتار کرسر سے لیکر پاﺅںتک چیک کرکے ذلیل ورسوا کیا جاتا ہے اور کبھی گاڑی کے کاغذات کی چیکنگ کے نام پر پریشانی اٹھانی پرتی ہے اور کبھی گاڑی کے انجن ،چیسیز نمبرکی چیکنگ کے بہانے ڈسٹرب کیا جاتا ہے۔زراعت کا محکمہ بھی کیا خوب محکمہ ہے ۔افسران بالا سے لیکر نائب قاصد تک موج میں ہیں ۔ کرنے کو کوئی کام نہیں ہے ۔ اکر کوئی کام ہوا بھی تو بس کاغذی کارروا ئی کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ ہاں اگر کبھی کام کا پریشر کندھوں پر آ ن پڑا تو چند بینرز لگا کر ، سڑکوںپر مٹی کی بنی ہوئی نیم پلیٹوں پر فصلوں کے بارے چند ہدایات لکھ کر کسانوں کی گراں قدرخدمات کے قصیدے گائے جاتے ہیںمگر بازاروں میں جوجعلی زرعی ادویات بکتی ہیں ۔ چالاک دکاندار سادہ لوح دیہاتوں کو اپنے دام فریب میں پھانس کردھوکہ دہی سے بیچتے ہیںکی روک تھام کےلئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں اپنائی جاتی ہے اور نہ ہی ایسے افراد ،زرعی ادویات بیچنے والی کمپنیوں کےخلاف کوئی کارروائی عمل میںلائی جاتی ہے۔جعلی زرعی ادویات کی سرعام فروخت ہو رہی ہے مگر کوئی بھی گرفت کرنے والا نہیں ہے ۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔اسی طرح محکمہ تعلیم کا بھی برا حال ہے ۔ محکمہ تعلیم میں پائی جانے والی کرپشن کے متعلق بھی آئے روز مختلف جگہوں سے خبریں آتی رہتی ہیںمگر حقیقی شنوائی کہیںسے بھی نہیں ہو رہی ہے ۔ ان کو نکال باہر کرنے کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہورہی ہے ۔ بہت سے ٹیچرز نے سکولوں میں اپنے اپنے گروپ بنارکھے ہیں ۔ محکمانہ کنٹرول بالکل نہیں ہے۔ ایسے افراد کی تخریبی کارروائیاں تعلیم جیسے شعبے کےلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے جن کا بروقت تدارک ضروری ہے۔